عجیب احساس ہے محبت، ہر ایک جذبہ مچل رہا ہے
کوئی محبت میں پل رہا ہے، کوئی محبت میں جل رہا ہے
اگر بلندی ملی ہے تجھ کو، تو ہستیاں بھی ضروری ہونگیی
غرور کس بات کا ہے تجھ کو، انا کا سورج تو دھل رہا ہے
تم او فصل بہار آئے، ہر ایک گل پر نکھار آئے
ابھی نہ تم مجھ سے دور جانا، ابھی تو موسم بدل رہا ہے
ابھی جو یہ ہم سفر ہے تیرا، نہ کرنا اس پر کبھی بھروسہ
کہیں بھی رستے میں چھوڑ دے گا، جو تیرے ہمراہ چل رہا ہے
ہمارا جو باغباں بنا ہے، اسی نے ہم کو دیا ہے دھوکہ
یہی سبب ہے کہ گلستاں میں، جو ہے وہی ہاتھ مل رہا ہے
دماغ نے دل کی مان لی ہے، کرے گا اب عشق ٹھان لی ہے
وہ دیکھو خود ہی الجھ گیا ہے، جو ساری مشکل کا حل رہا ہے
حسن فتحپوری