سفر کا آغاز تھا کہاں سے کہاں پہ اب اختتام ہو گا؟
نظر سے ہو گی جو گفتگو تو محبتوں کا سلام ہو گا
یوں رشک کرتے رہیں گے عاشق ہماری الفت کی داستاں پر
مِرے لبوں پر جب آخری سانس تک تمھارا ہی نام ہو گا
مِرے نصیبوں کی روشنی سے چمک اٹھے گا فلک کا چہرہ
زمین پر جب گلوں کی سنگت میں وصل کا اہتمام ہو گا
طواف کرتی رہیں گی نظریں بس اُس کے چہرے کا خامشی سے
وہ میرے پہلو میں آ کے دیوانہ وار جب ہمکلام ہو گا
محبتوں کا خمار چھائے گا دو دلوں پر کچھ اِس طرح سے
بنیں گی آنکھیں جو مےکدہ تو لبوں پہ مستی کا جام ہو گا
کبھی ہمارا بھی نام لے کر مثال دیں گے وفا کے راہی
کبھی تواہلِ جنوں کی دنیا میں یہ فسانہ بھی عام ہو گا
منزّہ سیّد