حیف ہم جس پے کہ تیار تھے مر جانے کو
جیتے جی ہمنے چھوڑ دییا اسی کاشانے کو
کیا نہ تھا اور بہانہ کوئی تڑپانے کو
آسماں کیا یہی باقی تھا ستم ڈھانے کو
لاکے غربت میں جو رکھا ہمیں ترسانے کو
پھر نہ گلشن میں ہمیں لاییگا سیاد کبھی
یاد آییگا کسے یہ دل-اے-ناشاد کبھی
کیوں سنیگا تو ہماری کوئی پھریاد کبھی
ہم بھی اس باغ میں تھے قید سے آزاد کبھی
اب تو کاہے کو ملیگی یہ ہوا خانے کو
دل فدا کرتے ہیں قربان جگر کرتے ہیں
پاس جو کچھ ہے وو ماتا کی نظر کرتے ہیں
خانا ویران کہاں دیکھیئے گھر کرتے ہیں
خوش رہو اہل-اے-وطن، ہم تو سفر کرتے ہیں
جاکے آباد کرینگے کسی ویرانے کو
نہ میسر ہوا راحتَ سے کبھی میل ہمیں
جان پر کھیل کے بھایا نہ کوئی کھیل ہمیں
ایک دن کا بھی نہ منظور ہوا بیل ہمیں
یاد آئیگا الیپر کا بہت جیل ہمیں
لوگ تو بھول گیے ہونگے اس افسانے کو
انڈمان خاک تیری کیوں نہ ہو دل میں نازاں
چھوکے چرنوں کو جو پنگلے کے ہئی ہے ذیشان
مرتبہ اتنا بڑھے تیری بھی تقدیر کہاں
اعتے اعتے جو رہے ‘بال تلک’ بھی میہماں
‘مانڈلے’ کو ہی یہ ایزاز ملا پانے کو
بات تو جب ہے کہ اس بات کی زدے ٹھانیں
دیش کے واسطے قربان کریں ہم جانیں
لاکھ سمجھائے کوئی، اسکی نہ ہرگز مانیں
بہتے ہئے خون میں اپنا نہ غریباں سانیں
ناسیہا، آگ لگے اس تیرے سمجھانے کو
اپنی قسمت میں اضل سے ہی ستم رکھا تھا
رنج رکھا تھا، میہن رکھا تھا، غم رکھا تھا
کسکو پرواہ تھی اور کسمیں یہ دم رکھا تھا
ہمنے جب وادی-اے-غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد-اے-وطن آئی تھی سمجھانے کو
ہم بھی آرام اٹھا سکتے تھے گھر پر رہ کر
ہم بھی ماں باپ کے پالے تھے، بڑے دکھ سہ کر
وقت-اے-رخصت انھیں اتنا بھی نہ آئے کہ کر
گود میں آنسو جو ٹپکے کبھی رخ سے بہ کر
طفل انکو ہی سمجھ لینا جی بہلانے کو
دیش سیوا کا ہی بہتا ہے لہو نس-نس میں
ہم تو کھا بیٹھے ہیں چتوڑ کے گڑھ کی قسمیں
سرپھروشی کی ادا ہوتی ہیں یوں ہی رسمیں
بھالے-خنجر سے گلے ملتے ہیں سب آپس میں
بہنوں، تییار چتاؤں میں ہو جل جانے کو
اب تو ہم ڈال چکے اپنے گلے میں جھولی
ایک ہوتی ہے فقیروں کی ہمیشہ بولی
خون میں پھاگ رچائیگی ہماری ٹولی
جب سے بنگال میں کھیلے ہیں کنھییا ہولی
کوئی اس دن سے نہیں پوچھتا برسانے کو
اپنا کچھ غم پر ہمکو خیال آتا ہے
مادر-اے-ہند پر کب تک زوال آتا ہے
‘ہردیال’ آتا ہے ‘یوروپ’ سے نہ ‘لال’ آتا ہے
دیش کے حالَ پے رہ رہ ملال آتا ہے
منتظر رہتے ہیں ہم خاک میں مل جانے کو
نوجوانوں، جو تبییت میں تمھاری خٹکے
یاد کر لینا ہمیں بھی کبھی بھولے-بھٹکے
آپ کے ززوے بدن ہویے جدا کٹ-کٹکے
اور صد چاک ہو ماتا کا کلیجہ پھٹکے
پر نہ ماتھے پے شکن آئے قسم خانے کو
دیکھیں کب تک یہ اسیران-اے-مصیبت چھوٹیں
مادر-اے-ہند کے کب بھاگ کھلیں یا پھوٹیں
‘گاندھی’ اپھریکا کی بازاروں میں صدقے کوٹیں
اور ہم چین سے دن رات بہاریں لوٹیں
کیوں نہ ترزیہ دیں اس جینے پے مار جانے کو
کوئی ماتا کی امیدوں پے نہ ڈالے پانی
زندگی بھر کو ہمیں بھیج کے کالے پانی
منہ میں جلاد ہئے جاتے ہیں چھالے پانی
آب-اے-خنجر کا پلا کرکے دعا لے پانی
بھرنے کیوں جاییں کہیں عمر کے پیمانے کو
میکدا کسکا ہے یہ جام-اے-سبو کسکا ہے
وار کسکا ہے جوانوں یہ گلو کسکا ہے
جو بہے قوم کی کھاتر وو لہو کسکا ہے
آسماں صاف بتا دے تو عدو کسکا ہے
کیوں نیے رنگ بدلتا ہے تو تڑپانے کو
دردمندوں سے مصیبت کی حلاوت پوچھو
مرنے والوں سے ذرا لطفَ-اے-شہادت پوچھو
چشم-اے-گستاکھ سے کچھ دید کی حسرت پوچھو
کشتہ-اے-نازتا سے ٹھوکر کی کیامت پوچھو
سوز کہتے ہیں کسے پوچھ لو پروانے کو
نوجوانوں یہی موقع ہے اٹھو کھل کھیلو
اور سر پر جو بلا آیے خوشی سے جھیلو
کونم کے نام پے صدقے پے جوانی دے دو
پھر ملینگی نہ یہ ماتا کی دعائیں لے لو
دیکھیں کون آتا ہے ارشاد بجا لانے کو
(حیف=افسوس، فدا=قربان، کاشانے=گھر،
بیل=ضمانت، ناسیہا=اپدیشک، رخ=چہرہ،
طفل=بچہ، صد=سو، شکن=تیوڑی،وٹ،
اسیران-اے-مصیبت=قید دا دکھ، گلو=گلا،
عدو=دشمن، چشم=اکھ، ارشاد بجا لانا=
کیہا مننا)
رام پرساد بسمل