اردو غزلیاتایوب خاورشعر و شاعری

یوں سرِ شام تری یاد میں آنسو نکل آئے

ایوب خاور کی اردو غزل

یوں سرِ شام تری یاد میں آنسو نکل آئے
جس طرح وادیِ پُر خار میں آہو نکل آئے

ہاتھ میں ہاتھ لیے تیرے خد و خال کے ساتھ
جانے کب آئینۂ جاں سے لبِ جُو نکل آئے

دِل کی چوکھٹ سے لگا بیٹھا ہے تنہائی کا چاند
اور اچانک کسی جانب سے اگر تُو نکل آئے

برف کے ریزوں کی صورت جو نظر آتے ہیں داغ
یہ ترے ہجر کے دُکھ ہیں جو سرِ مُو نکل آئے

وہ جو بے شاخ شجر تھے ترے رستے کا غبار
تُو نظر آیا تو ہر ایک کے بازو نکل آئے

تُو نہیں تھا تو یہ دل اپنی جگہ تھا کسی طور
تُو ملا ہے تو کئی ضبط کے پہلو نکل آئے

خاور اُس شخص کی اک اور صفت بھی ہے عجیب
جس کو چھو جائے اُسی سنگ سے خوشبو نکل آئے

ایوب خاور 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button