رات سی نیند ہے مہتاب اتارا جائے
اے خدا مجھ میں زر خواب اتارا جائے
کیا ضروری ہے کہ ناؤ کو بچانے کے لیے
ہر مسافر تہِ گرداب اتارا جائے
روز اترتا ہے سمندر میں سلگتا سورج
کبھی صحرا میں بھی تالاب اتارا جائے
سو چراغوں کے جلانے سے کہیں اچھا ہے
اک ستارہ سرِ محراب اتارا جائے
پتھروں میں بھی کئی پیچ پڑے ہیں شاہدؔ
ان پہ بھی موسم شاداب اتارا جائے
شاہد ذکی