اردو غزلیاتشعر و شاعری

نہ نکلا دوسرا ویسا جہاں میں

میر تقی میر کی ایک غزل

نہ نکلا دوسرا ویسا جہاں میں
وہی اک جنس ہے اس کارواں میں

کیا منھ بند سب کا بات کہتے
بلا کچھ سحر ہے اس کی زباں میں

اگر وہ بت نہ جانے تو نہ جانے
ہمیں سب جانے ہیں ہندوستاں میں

نیا آناً فآناً اس کو دیکھا
جدا تھی شان اس کی ہر زماں میں

کھنچی رہتی ہے اس ابروے خم سے
کوئی کیا شاخ نکلی ہے کماں میں

جبیں پر چین رہتی ہے ہمیشہ
بلا کینہ ہے اپنے مہرباں میں

نیا ہے کیا شگوفہ یہ کہ اکثر
رہا ہے پھول پڑتا گلستاں میں

کوئی بجلی کا ٹکڑا اب تلک بھی
پڑا ہو گا ہمارے آشیاں میں

پھرے ہے چھانتا ہی خاک اے میر
ہوس کیا ہے مزاج آسماں میں

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button