دنیا کی راویات سے بیگانہ نہیں ہوں
چھیڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں
اس کثرتِ غم پر بھی مجھے حسرتِ غم ہے
جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں
رو دادِ غم عشق ہےتازہ مرے دم سے
عنوان ہر فسانہ ہوں ، افسانہ نہیں ہوں
الزام ِ جنون دیں نہ مجھے اہلِ محبت
میں خود یہ سمجھتا ہوں کہ دیوانہ نہیں ہوں
وہ قائل خوداری اُلفت سہی لیکن
آدابِ محبت سے بیگانہ نہیں ہوں
ہے برقِ سرِ طور سے دل شعلہ بداماں
شمع سر محفل ہوں میں پروانہ نہیں ہوں
ہے گردشِ ساغر مری تقدیرکا چکر
محتاج طواف درمے خانہ نہیں ہوں
کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں
لزت کشِ نظارہ شکیل اپنی نظر سے
محرومِ جمال رُخ جانا نہ نہیں ہوں
شکیلؔ بدایونی