وصال جذبوں کی چاندنی میں کبھی نہیں تھا
کبھی نہیں تھا میں جستجو میں یقین کر نا
میں تیری زلفوں کی تیرگی میں کبھی نہیں تھا
کبھی نہیں تھا میں تیری آنکھوں کے قمقموں میں
میں خال و خد کے گداز موسم سے اجنبی تھا
مراسمِ جاں کی سازشوں میں گھرا نہیں تھا
سجا نہیں تھا میں تیری خواہش کی چلمنوں پر
کبھی نہیں تھا میں تیرے آنگن کی وسعتوں میں
میں تیرے گل گوں وجود کی تازگی لبوں پر
سمیٹ لیتا ، میں خانۂ دل بسا کے جیتا
اگر میں تیرے سرابِ جاں میں شمار ہوتا
مگر میں تیرے سرابِ جاں میں کبھی نہیں تھا
کبھی نہیں تھا میں تیری منزل کے راستوں پر
میں چار سانسوں کی کھوج میں تھا، میں دھڑکنوں کی
تلاش میں تھا، میں مفلسی کے عذاب میں تھا
میں تیرے آنچل کے شوخ رنگوں میں دب گیا تھا
کبھی نہیں تھا وصال جذبوں کی چاندنی میں
ناصر ملک