لطف کیا ہر کسو کی چاہ کے ساتھ
چاہ وہ ہے جو ہو نباہ کے ساتھ
وقت کڑھنے کے ہاتھ دل پر رکھ
جان جاتی رہے نہ آہ کے ساتھ
عشق میں ترک سر کیے ہی بنے
مشورت تو بھی کر کلاہ کے ساتھ
ہو اگرچند آسماں پہ ولے
نسبت اس مہ کو کیا ہے ماہ کے ساتھ
سفری وہ جو مہ ہوا تا دیر
چشم اپنی تھی گرد راہ کے ساتھ
جاذبہ تو ان آنکھوں کا دیکھا
جی کھنچے جاتے ہیں نگاہ کے ساتھ
میر سے تم برے ہی رہتے ہو
کیا شرارت ہے خیرخواہ کے ساتھ
میر تقی میر