شوق ہم کو کھپائے جاتا ہے
جان کو کوئی کھائے جاتا ہے
ہر کوئی اس مقام میں دس روز
اپنی نوبت بجائے جاتا ہے
کھل گئی بات تھی سو ایک اک پر
تو وہی منھ چھپائے جاتا ہے
یاں پلیتھن نکل گیا واں غیر
اپنی ٹکّی لگائے جاتا ہے
رویئے کیا دل و جگر کے تئیں
جی بھی یاں پر تو ہائے جاتا ہے
کیا کیا ہے فلک کا میں کہ مجھے
خاک ہی میں ملائے جاتا ہے
تہ جنھیں کچھ ہے ان کے تیں ہر گام
عرق شرم آئے جاتا ہے
جاے عبرت ہے خاکدان جہاں
تو کہاں منھ اٹھائے جاتا ہے
یکھ سیلاب اس بیاباں کا
کیسا سر کو جھکائے جاتا ہے
وہ تو بگڑے ہے میر سے ہر دم
اپنی سی یہ بنائے جاتا ہے
میر تقی میر