باہر کا دروازہ بھی ہم درد نہیں
جب تک گھر کے اندر کوئی مرد نہیں
جتنی شیش محل سے نکلی آتی ہے
ریگستانوں میں بھی اتنی گرد نہیں
جن لمحوں میں آوازیں جم جاتی ہیں
ان لمحوں میں دل کا لہجہ سرد نہیں
اک دن مجھ کو آئینے نے بتلایا
دنیا میں تجھ ایسا کوئی فرد نہیں
پیڑ نمو خیزی سے باز نہ آئیں گے
جب تک ہم چشموں کا پانی زرد نہیں
یہ دریا کوزے میں بند نہیں ہوتا
یہ شعروں میں ڈھلنے والا درد نہیں
کہساروں سی باتیں کرنے والوں میں
اب کوئی فرہاد سا بھی پامرد نہیں
فاختہ جن سے رستہ پوچھتی رہتی ہے
وہ جگنو ان باغوں کے پرورد نہیں
علی صابر رضوی