محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اِسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو
ہزاروں طرح کے دلکش حسیں ہالے بناتی ہو
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یُوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اِک بیج بوئے
اور شب میں اُٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے
کہ پودا اب کہاں تک ہے؟؟؟
محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خَو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری
ستاروں سے سوا روشن
ہواؤں کی طرح دائم
پہاڑوں کی طرح قائم
کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو کہ جیسے ہاتھ میں تارا
کہ جیسے شام کا تارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گُمنام کے شاخوں میں آشیانہ بناتی ہے اُلفت کا
یہ عین وصال میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی راہ گزر کی آخری سرحد پہ رُکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے
کہ یہ سچ ہے نا
ہماری زندگی اک دوسرے کے نام لکھی تھی
دُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہے
اسی کا نام چاہت ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہے
امجد اسلام امجد