"سراب”
ایک چل چلاو ہے ہاں سراب ہے دنیا
وقت کا پڑاو ہے اور بھاگنا ضروری ہے
زندگی جھمیلہ ہے آدمی اکیلا ہے
بے پناہ دوری ہے روشنی بھی پوری ہے
روشنی کی کرنوں سے بات چیت جاری ہے
پہلے باقی دنیا ہے پھر ہماری باری ہے
سوچتا ہوں ایسے میں چاند پر چلا جائے
اس گناہ کے گھر سے دور ہی رہا جائے
چاند پر جو بُڑھیا ہے مجھ کو یاد پڑتا ہے
چرخ کو گھماتی ہے وقت کو چلاتی ہے
میں اُسی کے پہلو میں ایک گھر بنا لوں گا
خواب کی فصیلوں پر سات سُر سجا لوں گا
پھر اِن سُروں اندر سے آسماں کو دیکھوں گا
میں خدا کو دیکھوں گا
اُس جگہ پہ نیکی کی سلطنت بناوں گا
اپنے دوستوں کو پھر چاند پر بلاوں گا
پر یہ جانتا ھوں میں آدمی فسادی ہے
جُرم اِسکی گُھٹی ہے یہ سزا کا عادی ہے
چاند کی فضاوں نے خُون کو نہیں سونگھا
اور میں یہ بدنامی چاند کو نہیں دونگا
میں وہاں نہ جاوں گا دوست نہ بلاوں گا
کچھ بہانا کر لوں گا دوست بھی ضروری ہیں
چاند کی تباہی سے یہ عذاب اچھا ہے
چاند پاک رہ جائے یہ سراب اچھا ہے
علی عبد اللہ ہاشمی