دل کسی طرح بھی اس بات پہ تیار نہیں
میں تجھے بھول تو جاؤں ،مگر اے یار نہیں
مصلحت زاد تعلق مجھے درکار نہیں
مصلحت ہے تو مری سمت سے سو بار “نہیں ”
عشق دریا کی طرح راستہ چن لیتا ہے
عشق کی راہ میں حائل کوئی دیوار نہیں
ہم تو آئینہ حیرت میں بسر کرتے ہیں
ہم جو اُس پار نظر آتے ہیں ، اُس پار نہیں
بعد اک عمر کے شوریدہ سروں پر یہ کھلا
یہ جو دیوار نظر آتی تھی ، دیوار نہیں
اس خموشی سے بہت رنج اٹھائے ہیں مگر
عشق کا مسئلہ کردار ہے ، گفتار نہیں
آنکھ اس خواب سے باہر کبھی آئے تو کھلے
ہم جو بیدار نظر آتے ہیں بیدار نہیں
دوستی ہے تو مری جان بھی قربان سعود
نوکری ہے ، تو نہیں ، اے مری سرکار ، نہیں
سعود عثمانی