کیا کہیے کلی سا وہ دہن ہے
اس میں بھی جو سوچیے سخن ہے
اس گل کو لگے ہے شاخ گل کب
یہ شاخچہ بندی چمن ہے
وابستگی مجھ سے شیشہ جاں کی
اس سنگ سے ہے کہ دل شکن ہے
کیا سہل گذرتی ہے جنوں سے
تحفہ ہم لوگوں کا چلن ہے
لطف اس کے بدن کا کچھ نہ پوچھو
کیا جانیے جان ہے کہ تن ہے
وے بند قبا کھلے تھے شاید
صد چاک گلوں کا پیرہن ہے
گہ دیر میں ہیں گہے حرم میں
اپنا تو یہی دوانہ پن ہے
ہم کشتۂ عشق ہیں ہمارا
میدان کی خاک ہی کفن ہے
کر میر کے حال پر ترحم
وہ شہر غریب و بے وطن ہے
میر تقی میر