کجی اس کی جو میں جتانے لگا
مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا
تحمل نہ تھا جس کو ٹک سو وہ میں
ستم کیسے کیسے اٹھانے لگا
رندھے عشق میں کوئی یوں کب تلک
جگر آہ منھ تک تو آنے لگا
پریشاں ہیں اس وقت میں نیک و بد
موا جو کوئی وہ ٹھکانے لگا
کروں یاد اسے ہوں جو میں آپ میں
سو یاں جی ہی اب بھول جانے لگا
پس از عمر اودھر گئی تھی نگاہ
سو آنکھیں وہ مجھ کو دکھانے لگا
نہیں رہتے عاقل علاقے بغیر
کہیں میر دل کو دوانے لگا
میر تقی میر