دل اب اُس کو ہار رہا ہے
خدشہ یہ ہر بار رہا ہے
اُس کے تاج و تخت کے پیچھے
میرا بھی کردار رہا ہے
جس کو خود تلوار تھمائی
وہ ہی اب لَلکار رہا ہے
تجھ پر جو بھی شعر کہا ہے
میرا وہ شاہکار رہا ہے
میں غربت کی بھیڑ میں گم تھا
وہ زَر کے اُس پار رہا ہے
بازی چاہے ہار گیا تھا
جیت کا وہ معیار رہا ہے
گُلشن کو مہکانے والا
واقف کارِ دار رہا ہے
منزل کے ہر گام پہ خالد
تُو مجھ کو درکار رہا ہے
اویس خالد