اردو نظمشعر و شاعریمجید امجد

نژادِ نَو

ایک اردو نظم از مجید امجد

برہنہ سر ہیں ، برہنہ تن ہیں ، برہنہ پا ہیں
شریر روحیں
ضمیر ہستی کی آرزوئیں
چٹکتی کلیاں
کہ جن سے بوڑھی ، اداس گلیاں
مہک رہی ہیں
غریب بچے ، کہ جو شعاعِ سحر گہی ہیں
ہماری قبروں پہ گرتے اشکوں کا سلسلہ ہیں

وہ منزلیں ، جن کی جھلکیوں کو ہماری راہیں
ترس رہی ہیں
انہی کے قدموں میں بس رہی ہیں
حسین خوابوں
کی دھندلی دنیائیں جو سرابوں
کا روپ دھارے
ہمارے احساس پر شرارے
انڈیلتی ہیں
انہی کی آنکھوں میں کھیلتی ہیں
انہی کے گم سم
اداس چہروں پر جھلملاتے ہوئے تبسم
میں ڈھل گئے ہیں ہمارے آنسو ، ہماری آہیں

طویل تاریکیوں میں کھو جائیں گے جب اک دن
ہمارے سائے
اس اپنی دنیا کی لاش اٹھائے
تو سیل دوراں
کی کوئی موجِ حیات ساماں
فروغِ فردا
کا رخ پہ ڈالے مہین پردا ،
اچھل کے شاید
سمیٹ لے زندگی کی سرحد
کے اس کنارے
پہ گھومتے عالموں کے دھارے
یہ سب بجا ہے ، بجا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ توتلی نَو خرام روحیں ، کہ جن کی ہر سانس انگبیں ہے
اگر انہی کونپلوں کی قسمت میں نازِ بالیدگی نہیں ہے
تو بہتی ندیوں
میں آنے والی ہزار صدیوں
کا یہ طلاطم
سکوتِ پیہم کا یہ ترنم
یہ جھونکے جھونکے
میں کھلتے گھونگھٹ نئی رتوں کے
تھکی خلاؤں
میں لاکھ اَن دیکھی کہکشاؤں
کی کاوشِ رَم
ہزار نا آفریدہ عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ ان کا مقصد نہ انکا حاصل
اگر انہی کونپلوں کی قسمت میں نازِ بالیدگی نہیں ہے

 

جولائی 1951ء

مجید امجد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button