- Advertisement -

ابو کھا رہے تھے ۔ امی تل رہی تھی

حافظ مظفر محسن کی مزاحیہ تحریر

ابو کھا رہے تھے۔۔۔ امی تل رہی تھی

’’امی تل رہی تھی، ابو کھا رہے تھے۔۔۔‘‘ میرے دوست نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ جواب دیا۔۔۔ صبح سویرے خبر آئی کہ شیخ عطاء محمد صاحب قضائے الٰہی سے فوت ہو گئے ہیں۔ نمازِ جنازہ صبح چھ بج کے تیس منٹ پر ادا کی جائے گی۔۔۔ مجھے دلی صدمہ ہوا۔۔۔ میں نے استاد کمر کمانی کو فون کیا۔۔۔ ’’حضور میں آ رہا ہوں، تیار رہیں اپنے دوست شیخ رضا محمد کے والد شیخ عطاء محمد صبح فوت ہو گئے ہیں جنازے پر چلنا ہے۔۔۔؟یار پاگل ہو گئے ہو ابھی تو میں نے نماز کے بعد والی اپنی نیند پوری کرنی ہے اور اتنی صبح کون سا جنازہ ہوتا ہے، سردیاں ہیں ذرا دھوپ تو نکل آنے دو۔۔۔‘‘ خفا ہوتے ہوئے استاد کمر کمانی نے کہا۔۔۔ ’’ویسے بھی بکرا عید اتنی صبح سویرے پڑھی جاتی ہے۔۔۔ وجہ تم جانے ہو۔۔۔‘‘ استاد نے وضاحت کی۔
’’حضور میں کون سا منتظمین میں شامل ہوںیہ اعلان تو ان کے بیٹوں نے کیا ہے اور SMS بھی یہی چلا ہے۔۔۔پیکیج کرایا ہو گا تمہارے دوست نے 20 روپے ہزار SMS ۔۔۔؟‘‘ پھر سے وضاحت کی اور فون بند۔۔۔ حضور میں نے پیکیج نہیں کروا رکھا تیسری کال کر رہا ہوں، اب غصے میں بند نہ کرنا ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔؟
اب کے میں نے فون بند کر دیا۔۔۔ فوراً کال آ گئی۔۔۔ میاں ۔۔۔ ’’ورنہ‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے۔۔۔ ’’ورنہ‘‘ کیا تم مجھے جنازے پر نہیں لے جاؤ گے۔۔۔ یہ شیخ برادری کی فوتیدگی ہے یہاں انہوں نے صبح چھ بجے نماز جنازہ کا وقت اسی لیے رکھا ہے کہ پونے سات تک جنازہ پڑھ کے فارغ ہوں اور اپنے اپنے گھر جا کر ناشتہ کریں تا کہ گھر والے بھی صبح صبح ابا جان کو دفن کر کے شاہ عالم مارکیٹ میں جا کر دکان کھولیں اور گاہکوں کو ڈیل کریں‘‘ میری ہنسی نکل گئی۔۔۔
استاد تو کتنی باریک باتیں کرتا ہے؟
’’تو اور کیا۔۔۔ میں جھوٹ بک رہا ہوں‘‘ استاد نے اکڑ کر جواب دیا۔
’’اور اگر وہ ظہر کے بعد جنازے کا وقت رکھتے تو۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’پھر مہمانوں کو جنازے کے بعد بریانی کھلانی پڑ جاتی۔۔۔‘‘ استاد نے نکتہ اٹھایا۔
جنازے کے بعد ہم لوگ افسردہ افسردہ گھر آئے تو گلی میں خاموشی تھی پتہ بھی نہیں چل رہا تھا کہ یہاں کوئی ’’تین کلو مچھلی کھا کر فوت ہوا ہے‘‘۔۔۔ استاد نے بات شروع کی۔۔۔ نہ کرسیاں نہ دریاں۔۔۔؟ روائتی معاملات نظر نہیں آ رہے تھے۔۔۔ جس طرح آج ساڑھے دس بجے اچانک پورے ملک میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ’’پارٹیوں نے چپکے سے دھرنا ختم کر دیا ہے اور اپنے اپنے گھروں کو معاملات طے ہوتے ہی رخصت بھی ہو چکے ہیں‘‘ اور بچے جو سکولوں سے چھٹیوں کی غیر اعلانیہ خوشی انجوائے کر رہے تھے اُن کی خوشیاں دھرنا ختم ہونے سے ماند پڑھ گئیں ۔۔۔ یہ ہوتا ہے ’’سیاسی دھرنا‘‘ ۔۔۔ ؟؟!!
استاد یہ سب کیا ہے۔۔۔؟ جاہل بار بار سوال نہ اٹھایا کر میں پہلے وضاحت کر چکا ہوں کہ شیخ رضاء کا خیال تھا کہ صبح چھ بجے نمازِ جنازہ پڑھو اور اپنے اپنے گھر جا کر نمازِ جنازہ کے بعد اپنی مرضی کا ناشتہ کرو اور ۔۔۔ بس؟ نہ پبلک BUSY نہ ہم مصروف۔۔۔؟
میں گھبرا گیا۔۔۔ میں نے تو میاں محمود الرشید کو بھی بتا دیا تھا کہ اپنے شیخ عطاء محمد صاحب فوت ہو گئے ہیں۔۔۔ انہوں نے SMS کر دیا تھا کہ ساڑھے آٹھ بجے تین گاڑیوں پر آؤں گا۔۔۔ پی۔ ٹی۔ آئی کے کارکنوں سے بھری ہوں گی گاڑیاں۔۔۔ چلو 2018ء کے ’’پر امید اور پچھلے سے بہتر رزلٹ والے‘‘ الیکشن متوقع ہیں ذرا الیکشن مہم بھی اسی بہانے تیز ہو جائے گی۔ ناشتہ کا بندوبست کرنے کا بھی اُنہوں نے کہا تھا۔ جنازہ میں SMS کی وجہ سے کم لوگ شریک ہوئے کیونکہ صبح پانچ بجے کئی لوگوں نے SMS پڑھا ہی نہیں ہو گا کیونکہ آجکل شہر میں بڑے برائنڈ کی کمپنیاں بلیک فرائیڈے کے حوالے سے پچاس پچاس SMS بھیج رہی ہیں کہ ہر چیز پچاس فیصد رعائت پر حاصل کریں حالانکہ بنیادی طور پر ہمارے ملک کی سادہ خواتین کے ساتھ یہ بری کمپنیوں کی بڑی بے ایمانی ہے اور بیچاری خواتین اس لالچ میں مختلف شو روموں پر ہاتھا پائی اور کھینچا تانی کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔۔۔ استاد نے خود سے ہی محمد حسین کو فون کر دیا۔۔۔ ’’میاں شیخ صاحب فوت ہو گئے ذرا تین چار نیلی لال دریاں جلد بھیج دو۔۔۔ ولیمے سے آئی دریاں نہ بھیج دینا، زردے کی خوشبو آتی ہے اور دل خراب ہونے لگتا ہے۔
استاد جی یہ دریاں کیوں منگوا رہے ہیں۔۔۔؟
’’میں نے مرنا ہے‘‘ استاد نے غصے سے گھورتے ہوئے رضاء کو جواب دیا۔۔۔ شیخ رضاء پھر بولا (آہستہ سے) اگر منگوانی ہے تو ایک منگوا لو۔۔۔ یہ کیٹرنگ والے بڑا کرایہ مانگتے ہیں۔۔۔ میں تو کہتا ہوں چندہ کر کے محلے والے دو تین دریاں اپنی ہی خرید لیں۔۔۔ ضرورت پڑتی رہتی ہے۔۔۔ پچیس اکتوبر کو میرے بیٹے کی ’’ختنے‘‘ بھی ہیں چلو وہاں بھی دریاں کام آ جائیں گی۔
میری ہنسی نکل گئی۔۔۔ اور شیخ رضاء دوسری طرف دیکھنے لگا۔
دریاں آ گئیں۔۔۔ ہم بیٹھ گئے۔۔۔ میں نے خود ہی شیخ رضاء کو بیٹھنے کی دعوت دی ۔
شیخ صاحب کیسے ہوئے ابا جی فوت۔۔۔ میں نے پوچھا تو سر پکڑ کر بولے ۔۔۔ ’’رات شہزاد چیمہ نے اپنے ’’فش فارم‘‘ کی صفائی کی تو بیس پچیس کلو مچھلی نکل آئی۔ انہوں نے پانچ کلو ہمیں بھی تحفت بھیج دی۔۔۔ ابا نے فرمائش کر دی۔۔۔ بھئی سردی کا سٹارٹ ہے اور مفت اتنی بڑی مقدار میں مچھلی آئی ہے ہمیں بھی کھلا دو‘‘۔۔۔ پچھلے سال مارچ میں کھائی تھی آخری بار۔۔۔
پھر کیا تھا۔۔۔ ’’امی جان مچھلی تل رہی تھیں اور ۔۔۔ ابا کھائے چلے جا رہے تھے‘‘ لگتا ہے ابا کلو۔۔۔ دو کلو کھا گئے۔۔۔؟ اور صبح نہیں اٹھے۔۔۔ پتہ نہیں رات کس پہر گزر گئے۔۔۔؟؟
’’میری ہنسی نکل گئی۔۔۔‘‘ رضاء کو شاید ابا کے فوت ہونے کا اتنا افسوس نہیں تھا جتنا دکھ اس بات کا تھا کہ ابا ۔۔۔ کلو ۔۔۔ دو کلو کھا گئے مچھلی۔۔۔ ایک ہی نشست میں۔۔۔ وہ بھی جاتے جاتے۔۔۔؟؟
اس سے پہلے میری ہنسی حیدر زیدی کے ابا جان کے جنازے پر ایسے ہی بے ساختہ نکلی تھی۔۔۔ جب ہم نے زیدی انکل کو قبر میں اتارا تو میں نے اک قبر میں بڑا سا سوراخ دیکھ کر پوچھا ۔۔۔ استاد یہ کیا ہے؟؟
ایسے بڑے سوراخوں میں عام طور پر بجّو رہتے ہیں۔۔۔ استاد نے بتایا۔
استاد بجّو کیسے ہوتے ہیں۔۔۔؟ میں نے پوچھا۔
’’ایسے۔۔۔‘‘ شیخ رضاء نے استاد کمر کمانی کی طرف اشارہ کر دیا۔
استاد غصے سے لال اور میری ہنسی نہ بند ہو۔۔۔ بعد میں شیخ بھی بے ساختہ ہنس پڑا۔۔۔ حیدر زیدی نے یہ منظر دیکھا تو تیز تیز قدم اٹھاتا ہمارے پاس آیا۔۔۔
’’بے غیرتو‘‘۔۔۔ میرے والد کو قبر میں اتارا جا رہا ہے اور تم ہنس رہے ہو۔
میں نے بجّو والی بات بتا دی۔۔۔ اب جو ہنسی کا فوارا حیدر علی زیدی کے منہ سے نکلا ہے۔۔۔ تو مت پوچھئے ہم کس قدر شرمندہ ہوئے۔۔۔ مگر ہنسی ہم میں سے کسی کی بھی بند نہیں ہو رہی تھی۔۔۔
ہم سنجیدگی طاری کریں لیکن ہم میں سے جس کی نظر استاد کمر کمانی پر پڑے۔۔۔ ہنسی چھوٹ جائے۔
مظفر یار رکشاء کروا اور استاد کمر کمانی۔۔۔ کو یہاں سے لے جا۔۔۔ بات جنگل کی آگ کی طرح قبرستان میں پھیل چکی ہے اور لوگ بجّو دیکھنے جوق در جوق آ رہے ہیں۔۔۔ اور جس کی نظر استاد پر پڑتی ہے اور جس نے بجّو نہیں بھی دیکھا وہ استاد کو دیکھ کر ہنسی نہیں روک پا رہا ’’عزت بچاؤ۔۔۔‘‘ استاد کو یہاں سے لے جاؤ۔۔۔
چونکہ میری گاڑی۔۔۔ جنازہ میں شریک لوگوں کی گاڑیوں میں پھنسی ہوتی تھی۔۔۔ اس لیے میں نے رکشہ کروایا اور استاد کو وہاں سے لے کر نکل پڑا۔۔۔
استاد نے اس افرا تفری میں قبرستان سے نکل جانے کی وجہ پوچھی۔۔۔ تو میں نے منہ پر انگلی رکھ کے چپ رہنے کو کہا۔۔۔ اور رکشے سے باہر دیکھنے لگا۔
کیونکہ ’’استاد کو دیکھنے کی سکت مجھ میں بھی نہ تھی‘‘۔
ویسے آپ نے قبرستانوں میں رہنے والی یہ مخلوق ’’بجّو‘‘ دیکھا ہے ۔۔۔ ’’نہیں‘‘ ۔۔۔ تو وقت لے کر مجھ سے مل لیں۔۔۔ میں آپ کی ملاقات استاد کمر کمانی سے کروادونگا۔۔۔‘‘؂
’’مزہ نہ آئے تو پیسے واپس‘‘

حافظ مظفر محسن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
حافظ مظفر محسن کی مزاحیہ تحریر