آپ کا سلاماردو افسانےاردو تحاریرشاکرہ نندنی

تاریخ کے وارث – دوسری قسط

ایک اردو افسانہ از شاکرہ نندنی

shakira nandni

شہر کا سب سے بڑا اور جدید میڈیکل کالج اپنی شاندار عمارتوں، کھلے باغات، اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کلاس رومز کے لیے مشہور تھا۔ سورج آسمان پر بلند ہو چکا تھا، اور سبرینا اور آلیان اپنی گفتگو میں مصروف، کیفے سے نکل کر کالج کی راہداریوں میں چل رہی تھیں۔ دونوں کے قدموں کی چاپ راہداری کی خاموشی کو توڑ رہی تھی۔

آلیان نے شوخی بھرے انداز میں کہا، "سبرینا، سنان کو دیکھنا، آج بھی کتابوں میں گم ہوگا جیسے دنیا کی ساری ذمہ داری اسی کے کندھوں پر ہو۔”

سبرینا نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "سنان ہمیشہ سے ایسا ہی ہے۔ لیکن اس کی باتوں میں گہرائی ہوتی ہے۔ شاید آج بھی وہ ہمیں کسی نئے فلسفے سے روشناس کرائے۔”

دونوں کلاس روم کے دروازے پر پہنچیں تو اندر کا منظر ان کے اندازے کے عین مطابق تھا۔ سنان اپنی مخصوص نشست پر بیٹھا گردن جھکائے ایک کتاب میں غرق تھا۔ اس کی انگلیاں کتاب کے صفحات کو آہستہ آہستہ پلٹ رہی تھیں، اور اس کی پیشانی پر سوچ کی گہری لکیریں تھیں۔

آلیان نے دروازے سے اندر قدم رکھتے ہی ایک چمکتی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "لو بھئی، یہ رہا ہمارا فلسفی، جو دنیا کے راز کھولنے میں مصروف ہے!”

وہ دونوں سنان کی بنچ کی طرف بڑھیں اور اسے دونوں طرف سے گھیر کر بیٹھ گئیں۔ آلیان نے اپنی ہتھیلی سے سنان کی کمر پر ایک ہلکی سی چپت ماری اور ہنس کر بولی، "آج میرا پڑھاکو شیر کہاں گم ہے؟”

سنان نے کتاب بند کر کے گہری سانس لی اور تھوڑا سا کھسک کر بیٹھتے ہوئے کہا، "آلیان، مجھے تنگ مت کرو۔ آج کا لیکچر انتہائی حساس نوعیت کا ہے، اور میں اس کی پہلے سے اسٹڈی کر رہا ہوں۔”

آلیان نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا، "کیا ایٹم بم بنا سکھائیں گے آج؟”
اس کے انداز میں شوخی تھی، اور وہ سنان کے اکھڑے ہوئے مزاج سے لطف اٹھا رہی تھی۔

سبرینا، جو ہمیشہ سنجیدہ باتوں میں دلچسپی لیتی تھی، آلیان کی ہنسی کو نظرانداز کرتے ہوئے بیچ میں بول پڑی، "کیسا حساس موضوع؟”

سنان نے اپنا انداز تبدیل کیا۔ اس کی آنکھوں میں سنجیدگی تھی اور لہجہ معمول سے زیادہ گہرا، "ایٹم بم سے بھی خطرناک۔ بلکہ اس سے سو گنا مہلک۔ لیکن تم دونوں کو سمجھانا فضول ہے، کیونکہ تم لوگ ہمیشہ بات کا مذاق بنا دیتی ہو۔”

آلیان نے مصنوعی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "اوہ! تو یہ بات ہے؟ ہمیں ذرا سسپنس میں رکھنا تو چھوڑ دو!”

اسی دوران، دروازے پر کلاس کے استاد نمودار ہوئے۔ وہ ایک درمیانی عمر کے آدمی تھے، جن کے چہرے پر تجربے کی جھلک اور آنکھوں میں ایک گہری سنجیدگی تھی۔ کلاس کے اندر خاموشی چھا گئی۔

استاد نے بورڈ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا، "آج کا موضوع انسان کی بائیولوجیکل تخلیق اور جینیاتی معلومات سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہماری سمجھ کو چیلنج کرے گا اور شاید کئی طلبہ کو حیران کر دے گا۔”

انہوں نے ایک سرنج کا خاکہ بورڈ پر بنایا اور کہنا شروع کیا:
"فرض کریں کہ ایک مرد اور ایک عورت اپنے اسپرم یا اوویوم کو کسی دوسری عورت میں انجیکٹ کرتے ہیں۔ تو جو بچہ پیدا ہوگا، اس کے جینیاتی خدوخال اس مرد اور عورت سے مطابقت رکھیں گے جنہوں نے یہ مواد فراہم کیا ہوگا، نہ کہ اس عورت سے جو بچہ پیدا کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت صرف ایک میزبان کے طور پر کام کرے گی، اور اس کا ڈی این اے بچے کے جینیاتی مواد میں شامل نہیں ہوگا۔”

کلاس میں خاموشی چھا گئی۔ یہ موضوع تمام طلبہ کے لیے نیا اور غیر معمولی تھا۔ کچھ کی آنکھوں میں حیرت تھی، کچھ سوچ میں ڈوب گئے، اور کچھ کے چہروں پر سوالیہ نشان تھے۔

آلیان نے دھیمی آواز میں سبرینا کے کان کے قریب جھکتے ہوئے کہا، "کیا واقعی؟ یہ تو سائنس فکشن کی طرح لگ رہا ہے!”

سنان نے، جو استاد کی ہر بات کو گہرائی سے سن رہا تھا، ایک لمبی سانس لی اور آہستہ سے بولا، "یہ حقیقت ہے۔ یہی تو سائنس کا کمال ہے، مگر یہ ہمیں بہت سے اخلاقی سوالات میں بھی الجھا دیتا ہے۔”

کلاس کے ختم ہونے کے بعد، یہ پانچوں پارک میں جا بیٹھے۔ سب کے ہاتھوں میں کافی کے کپ تھے، اور موضوع وہی لیکچر تھا۔ آلیان نے شوخی بھرے انداز میں کہا، "یار، یہ تو بڑی فلمی بات لگتی ہے۔ کیا ہم سب بھی کسی ‘ٹیسٹ ٹیوب بے بی’ کے تجربے کا حصہ ہیں؟”

فریڈ نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "اگر ایسا ہوتا، تو میری جگتیں اتنی زبردست نہ ہوتیں۔”

سبرینا، جو ہمیشہ گہری باتوں میں دلچسپی رکھتی تھی، سنان کی طرف متوجہ ہو کر بولی، "سنان، تم نے کہا تھا کہ یہ موضوع ایٹم بم سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ کیا تم سمجھا سکتے ہو کیوں؟”

سنان نے کپ کو میز پر رکھتے ہوئے کہا، "یہ صرف سائنس کا سوال نہیں ہے، یہ انسانیت، اخلاقیات، اور سماج کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر انسان اپنی تخلیق کو اس طرح کنٹرول کر سکتا ہے، تو یہ طاقت ہمیں کئی اخلاقی بحرانوں میں ڈال سکتی ہے۔ یہ سوال ہے کہ ہم کس حد تک قدرت کے کاموں میں مداخلت کر سکتے ہیں۔”

جوئے، جو زیادہ تر خاموش رہا کرتا تھا، اس نے پہلی بار سنجیدگی سے کہا، "اور اگر اس طاقت کا غلط استعمال کیا گیا تو؟ کیا ہم اپنی نسلوں کو کسی غیر متوقع تباہی کی طرف دھکیل نہیں دیں گے؟”

ایک لمحے کے لیے سب خاموش ہو گئے۔ ہوا میں کافی کی مہک کے ساتھ ساتھ ان کی گہری سوچیں بھی تحلیل ہو رہی تھیں۔ یہ گفتگو محض ایک سادہ لیکچر کے موضوع پر نہیں تھی؛ یہ ان سب کے لیے زندگی کے نئے پہلوؤں کو سمجھنے کا آغاز تھا۔

شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ بندۂ ناچیز ایک ہمہ جہت فنکارہ ہے، جس نے ماڈلنگ، رقص، تحریر، اور شاعری کی وادیوں میں قدم رکھا ہے۔ یہ سب فنون میرے لیے ایسے ہیں جیسے بہتے ہوئے دریا کے مختلف کنارے، جو میری زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button