کتنے روزوں سے نہ سونے کے ہیں نے کھانے کے
دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے
ہائے کس خوبی سے آوارہ رہا ہے مجنوں
ہم بھی دیوانے ہیں اس طور کے دیوانے کے
عزم ہے جزم کہ اب کے حرکت شہر سے کر
ہوجے دل کھول کے ساکن کسو ویرانے کے
آہ کیا سہل گذر جاتے ہیں جی سے عاشق
ڈھب کوئی سیکھ لے ان لوگوں سے مرجانے کے
جمع کرتے ہو جو گیسوے پریشاں کو مگر
ہو تردد میں کوئی تازہ بلا لانے کے
کاہے کو آنکھ چھپاتے ہو یہی ہے گر چال
ایک دو دن میں نہیں ہم بھی نظر آنے کے
ہاتھ چڑھ جائیو اے شیخ کسو کے نہ کبھو
لونڈے سب تیرے خریدار ہیں میخانے کے
خاک سے چرخ تلک اب تو رکا جاتا ہے
ڈول اچھے نہیں کچھ جان کے گھبرانے کے
لے بھی اے غیرت خورشید کہیں منھ پہ نقاب
مقتضی دن نہیں اب منھ کے یہ دکھلانے کے
لالہ و گل ہی کے مصروف رہو ہو شب و روز
تم مگر میر جی سید ہو گلستانے کے
میر تقی میر