نصاب دل کا حسن کی کتاب سے نکل گیا
میں اپنے جسم و جان کے عذاب سے نکل گیا
محبتوں کے غول سے ضرورتوں کے مول سے
حسین آتشی بدن حجاب سے نکل گیا
وہ کتنا خوش نصیب ہے فنا ہوا جو عشق میں
گناہ سے نکل گیا ۔۔۔ثواب سے نکل گیا
امیر پر کرم ترا نوازشیں ، ۔۔۔عنایتیں
غریب تیرے لطف کے حساب سے نکل گیا
مری مجال ہے مری زباں پہ اس کا نام ہو
یہ راز گوش غیر تک جناب سے نکل گیا
کسی حسیں کے پیار میں وہ مرحلے بھی طے ہوئے
سوال سے نکل گیا ۔۔۔۔جواب سے نکل گیا
مجھے کہاں پہ لے گئی ہے منزلوں کی جستجو
میں اپنے راستے کے ہر سراب سے نکل گیا
مرے لہو سے پیاس بھی بجھی نہیں زمین کی
مگر میں اپنے زعم میں سحاب سے نکل گیا
عدید کیسی آس ہے اک اجنبی دیار میں
میں اس کو ڈھونڈتا رہا جو خواب سے نکل گیا
سید عدید