- Advertisement -

اردو غزل کا سورج – سورج نرائن

عرفان خٹک کا اردو مضمون

اردو غزل کا سورج – سورج نرائن

لوگ کہتے ہیں کہ مضمونِ غزل میں سورج
ایک رنگین سا اندازِ بیاں رکھتا ہے

سورج نرائن نے شاعری کا آغاز 60ءکی دہائی میں کوہاٹ سے کیا یہ وہ دور تھا جب اردو شاعری میں تخلیقی مزاج ، شعری جمالیات اور طرز احساس کے حوالے سے متنوع تجربات ہو رہے تھے یہی وہ وقت ہے جب ترقی پسند ی اور جدیدیت کی ہم آہنگی سے ایسے تجربات ہوئے کہ اردو شاعری دنیا کی بڑی زبانوں کی شاعری کے ہمرکاب آگئی یہ نظم کا دور تھا اور ظفر اقبال جیسے باغی شعراءنے مسلسل غزل لکھ کر نئے دور کا آغاز کیا ۔ مقامی زبانوں کے الفاظ حقیر غزل بنے اور متروک تراکیب کا دوبارہ احیاءہوا۔ تب جب فیض ، ساحر لدھیانوی، ناصر کاظمی ، منیر نیازی ، شہزاد احمد جیسے شعراءاپنے اپنے موسموں کی گونج پیدا کررہے تھے ۔ سورج کی پہلی کتاب ”پیاسا چاند “ منظر عام پر آئی اورغزل کی دنیا میں ایک طوفان برپا کردیا ۔ بعض لوگوں نے ان کا کلام کو سن کر ناک بھون چڑھائی لیکن یہ تو تب بھی ہوا تھا جب فراز جیسی شخصیت جلوہ گر ہوئی تھی۔

تیغ بکف جب لوگ تھے ایسے عالم میں
میرے ہاتھ سے صرف قلم وابستہ تھا

تاحال سورج نرائن کے18مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ سورج نرائن مسلسل محنت اور پیہم تخلیق عمل کی روشن علامت ہے جس طرح سورج اپنی بیکراں توانائی سے نہ صرف خود روشن ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں سالوں سے نہ جانے کہاں کہاں تک اپنی ضیاءبکھیر رہا ہے بالکل اسی طرح سورج نے بھی ایک طویل عرصے سے اپنی تخلیق حرارت اور روشنائی سے شعر و اب کی محفلوں اور چہرہ قرطاس کو روشن رکھا ہے آج اُس کی یہ حرارت کوہاٹ سے کراچی ، پاکستان سے بھارت او ر متحدہ عرب امارات سے یورپ و امریکہ تک پہنچ رہی ہے۔

غزل کے روپ میں لایا ہوں آج محفل میں
وہ دردِ عشق کہ اِس قلبِ داغدار میں تھا

سورج نرائن کی شاعری ، سخنوری کی تمام تر رایات کی پاسداری ، تازہ احساس کی پیشکش ، نئے لہجہ کی دریافت ، رواں سبک الفاظ کے ذریعے گہری معنویت پیش کرتی ہے یہاں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ سورج نرائن کی غزل محض ایک موضوع یا واقعات کے کسی ایک سلسلہ تک محددود نہیں رکھا بلکہ اس کے ہاں بیک وقت سوچ کے کئی سلسلے کارفرما نظرآتے ہیں۔ وہ شاعرانہ بصیرت سے زندگی اور زندگی کی مختلف النوع حقیقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے ۔ روایات کی پاسداری سے انحراف اگرچہ اُس وقت کا مشن تھا لیکن آپ روایت کے امین بن کرسامنے آئے ۔ مثالیں ملاحظہ ہوں:

نہ میرے بال بکھرے ہیں نہ میرے ہاتھ میں پتھر
زمانے کو دکھاؤں گا میں اندازِ جنوں کیسے

شمع کی سانسیں ڈوب گئیں ہیں رو رو کر
کون خبر پہنچائے گا پروانے تک

سورج ایک ذہین فنکار ہے اُن کی فنی ہنر مندی اُن کی غزل کے ایک ایک لفظ سے واضح ہے اُن کا شمار اُن ایک مفید شعراءمیں کیا جاسکتا ہے جو غزل سے اپنی بات کہلوا سکتے ہیں ورنہ ننانوے فیصد شاعر تو بس غزل کی ہاں میں ہاں ملانے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔

دائرہ آپ کی بانہوں کا بھنور لگتا ہے
اب تو بے ساختہ چاہت سے بھی ڈر لگتا ہے

ان کی شاعری میں رومانوی رنگ جابجا جھلکتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ آپ کی انگریزی ادب سے واقفیت ہے آپ نے مغربی رومانوی شعراءولیم بلیک ، کولرج ، ورڈزورتھ ، بائرن اور کیٹس وغیرہ کو نہ صرف پڑھا بلکہ اس کو اپنے اندر جذب کیا اُن کی غزل سے ان کے برسوں کا مطالعہ اور محنت شاقہ صاف جھلکتی ہے اُن کے یہاں حسن و عشق کے لازوال تذکرے بھی ہیں اور محبت کی زخم خوردگی کاا حساس بھی۔

پھر تڑپوں گا اوڑھ کے چادر یادوں کی
سلوٹ سلوٹ پھر بستر ہو جائے گا

سورج ایک کھرا شاعر ہے اُن کے ہاں مصلحت ہے نہ مصالحت ۔ وہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ آپ کی شاعری تقریباً نصف صدی پر محیط ہے آپ نے ہر عہد کا ظلم دیکھا لیکن ہر عہد مین قلم سرخرو رہا۔ آپ مظلوم اور پسے ہوئےطبقے کے ترجمان ہیں باالفاظ احتجاج اور مزاحمت کا میلان آپ کی شاعری مین اپنے عام معاصرین کی نسبت زیادہ ہے۔

سچی محبت کی اجرت پر ، دھیان نہیں دیتا
میرا حق کیوں نگری کا سلطان نہیں دیتا

یقینا رنگ لائیں گی ہاری محنتیں سورج
ملے گی دست و پا کو ایک دن اجرت تھکاوٹ کی

سورج کا قلم حالاتِ حاضرہ کی خوبصورت ترجمانی کرتا ہے۔ آج کا حکمران بے حس ہے ۔ مہنگائی ، چور بازار ی ، لوٹ کھسوٹ عروج پر ہے سورج کاقلم یہاں بھی رکھتا نہیں کیوں کہ یہ اس کے ضمیر کے خلاف ہے۔

کیوں نکل آئے ہیں سورج آج سڑکوں پر عوام
بڑھ گئے ہیں اور شاید سربراہوں کے فریب

غزل اور تغزل لازم و ملزوم ہیں ۔ غزل جسم اور تغزل اس کی روح ہے اگر غزل تغزل سے عاری ہو تو یہ زندگی کے حدود سے نکل جاتا ہے آپ کا تغزل آپ کے رومانوی طرز فکر کا ترجمان ہے ۔ جب سورج اپنے دھیمے لہجے کی نزاکت و لطافت ، رمزو اشاریت اور موسقیت کی مدھر لے اس میں شامل کر تے ہیں تو تغزل کا رنگ مزید نکھر جاتا ہے۔

محبت کے نصبیوں پر قیامت ٹوٹتی دیکھی
کہ تجھ کو غیر کی محل میں محوِ گفتگو دیکھا

میں تیری راہ میں بیٹھا ہوا گزارش بن کر
زندگی بھول کے کرلے کبھی منظور مجھے

آنکھوں سے بول بول کے اب تھک چکا ہوں میں
ظالم مری زباں کا تکلم بحال کر

سورج کے کلام میں انسانی نفسیات کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے ایک جھلک ملاحظہ ہو:

وہ بات بات پہ کرتا ہے گفتگو اپنی
میں بات بات پہ اپنی مثال دیتا ہوں

سورج کے کلام میں احساسِ محرومی ایک طاقتور حوالہ ہے یہ احساس صرف ذاتی حوالے سے نہیں ہے بلکہ من حیث القوم ہے۔

یہ کیا کہ ہر مقام پر احساس کمتری
سورج مری بساط کا کچھ تو خیال کر

سورج کے اس احسا س کے بارے میں غلام محمد قاصر لکھتے ہیں:

نامہ بر ہمجولیوں میں اُس کی یہ پہچان ہے
خط اُس دینا تُو جس کے کان میں بالی نہ ہو

یہ شعر بندہ سخن سورج نرائن کا ہے جو بلاغت کا ایک جہان معنی اپنے اندر رکھتا ہے ۔ میری دانست میں سورج کی فکری ترجیحات میں آزادی کی طلب اور غلامی سے نفرت سرفہرست ہیں۔

اک اُدھر وہ ہیں کہ اس کو دھوپ بھی راس آگئی
اک اِدھر میں ہوں کہ جلتا جا رہا ہوں چھاؤں میں

وطن کی محبت ایمان کا لازمی جزو ہے یہ انسان کی سرشت میں شامل ہے اور بقول افتخار عارف۔

خاک سے شوکت پندار انا ملتی ہے
اپنی مٹی سے بچھڑنے کی سزا ملتی ہے

سورج کی شاعری میں وطن سے محبت کے گیت جابجا بکھرے نظرآتے ہیں۔ 65ءکی پاک بھارت جنگ کے موقع پر آپ کا یہ خوبصورت شعر آپ کے جذبہ حب الوطنی کی بہترین مثال ہے۔

جب بھی آیا ہے کوئی زخم تیرے سینے پر
اے وطن تیری قسم میرا بدن ٹوٹا ہے

سورج کی مستعمل تراکیب کی جدت کے باوجود کہیں بھی ابلاغ متاثر نہیں ہوتا اور شاعر جو بات کہنا چاہتا ہے وہ پوری حسیت کے ساتھ قاری تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی شاعری کے ہر پہلو کو اگر انفرادی طور پر بیان کیا جائے تو بات کچھ بنتی ہوئی نظرنہیں آئے گی ہاں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نرائن کی غزل میں اُس کا عہد سانس لیتا ہے۔اور غزل بھی وہ جسے جدید تر غزل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کرب میں ڈوبی ہوئی یہ آواز بہت موثر اور فعال ہے۔

بڑی بڑی دیواریں کیسے توڑوں گا
چھوٹے چھوٹے ہاتھ لیے پھرتا ہوں میں

کل تک بڑے کمال سے گم تھے عذاب میں
اب تو خدا بھی بھول گیا اضطراب میں

اسی طرح غلام محمد قاصر سورج نرائن کی شاعری کے مستقبل کے حوالے سے پیشن گوئی کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:

”سورج ۔ کار تخلیق کو عبادت گردانتا ہے اگرچہ اُس کی شہرت کا گرافابھی اس درجے سے نیچے ہے جہاں اُسے ہونا چاہیے اوراس کی وجہ بقول آتش۔
طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
یہاں تک کہ وہ کسی اخبار سے بھی وابستہ نہیں۔ سورج رائن کا ایک شعر ہے۔

کتنا بے ڈھنگ تناسب ہے محاذ غم پر
اتنے لشکر سے لڑے ایک سپاہی کیسے

سورج ۔ مستقبل کا شاعر ہے وہ اکیلا ضرور ہے لیکن نہتانہیں کیوں کہ اُس کے ساتھ اُس کی طاقت ور غزل ہے جو اُس کی کامرانیوں کی داستانیں لکھ رہی ہے اور یہ داستانیں اس وقت تک باقی رہیں گی جب تک اس کے معاصرین جھوٹی شہرتوں کے انبار تلے دب نہ جائیں۔“

سستی شہرت اس لیے مطلوب نہیں
گھٹ جائے تو نام پہ گالی لگتی ہے

تحریر: عرفان خٹک لیکچررڈگری کالج نمبر 2 بنوں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
وہاب اعجاز خان کا بلاگ