پہنچے جو سرِ عرش تو نادار بہت تھے
دُنیا کی محبت میں گرفتار بہت تھے
گھر ڈوب گیا اور اُنہیں آواز نہیں دی
حالانکہ مرے سلسلے اُس پار بہت تھے
چھت پڑنے کا وقت آیا تو کوئی نہیں آیا
دیوار گِرانے کو رضا کار بہت تھے
گھر تیرا دکھائی تو دیا دُور سے لیکن
رستے تری بستی کے پُر اسرار بہت تھے
ہنستی ہوئی آنکھوں کا نگر کہتے رہے ہم
جس شہر میں نوحے پسِ دیوار بہت تھے
یہ بے رُخی اک روز تو مقسوم تھی اپنی
ہم تیری توجہ کے طلب گار بہت تھے
آسائشِ دُنیا کا فسوں اپنی جگہ ہے
اس سُکھ میں مگر روح کے آزار بہت تھے
پروین شاکر