ایسے دیکھا کہ دیکھا ہی نہ ہو
جیسے اُس کی مجھے پروا ہی نہ ہو
یہ سمجھتا ہے ہَر آنے والا
میں نہ آؤں تو تماشا ہی نہ ہو
بعض گھر شہر میں ایسے دیکھے
جیسے اُن میں کوئی رہتا ہی نہ ہو
مجھ سے کترا کے بھلا کیوں جاتا
شاید اُس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو
رات ہر چاپ پہ آتا تھا خیال
اُٹھ کے دیکھوں، کوئی آیا ہی نہ ہو
کیسے چھوڑوں در و دیوار اپنے
کیا خبر لوٹ کے آنا ہی نہ ہو
ہیں سبھی غیر تو اپنا مسکن
شہر کیوں ہو، کوئی صحرا ہی نہ ہو
یوں تو کہنے کو بہت کچھ ہے شعورؔ
کیا کہوں، جب کوئی سنتا ہی نہ ہو
ارمیشہ شاہد
383 پوسٹیں
پچھلی تحریر
اگلی تحریر
- تبصرے
- فیس بک کے تبصرے