شیخوپورہ کا ضمنی انتخاب: جیت کس کی؟
سید زاہد کا ایک کالم
پی ٹی آئی اور پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی میں اپنی واضح شکست دیکھتے ہوئے پانچ دن کا وقت مانگنے سپریم کورٹ گئے۔ روباہ سیاست سمجھتا تھا کہ پانچ دنوں کے بعد بھی حالات نے حسب مقصود کوئی کروٹ نہیں لینی اس لیے حمزہ شہباز کو بیس دن تک وزیراعلیٰ مان لیا۔ پی ٹی آئی کو سمجھ کچھ دیر بعد آئی۔ پھر اعلیٰ عدلیہ سے ڈانٹ کھا کر وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے۔ اب ان کی ساری امیدیں سترہ جولائی کے الیکشن پر ہیں۔
اس دن پنجاب کی بیس سیٹیں ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گیں۔ ان میں سے ایک جوڑ ہمارے شہر شیخوپورہ میں پڑے گا۔
شیخوپورہ پنجاب کے اس مرکزی علاقے کا ایک شہر ہے جہاں سیاسی پارٹیاں کام کرنا مشکل سمجھتی ہیں۔ اس شہر کی اکلوتی سیٹ پر ضمنی الیکشن ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے سابق وزیر میاں خالد محمود نون لیگ کی ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف نے ضلع کے طاقتور خاندان کے فرد، شیخوپورہ بار کے صدر خرم شہزاد ورک کو ان کے مقابلے کے لیے تیار کیا ہے۔ دونوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے تحریک لبیک بھی میدان میں موجود ہیں۔ نون لیگ کی اس انتخابی مہم کی نگرانی وفاقی وزیر جاوید لطیف کر رہے ہیں۔
اگرچہ میاں جاوید اپنے بھائی کو ٹکٹ دلانے کے لیے لندن یاترا بھی کر آئے لیکن اس سیٹ کو جیتنا اب ان کی مجبوری بن چکی ہے۔ پارٹی میں ضلع شیخوپورہ کا دوسرا بڑا دھڑا وفاقی وزیر رانا تنویر کا ہے جو کہ اندرونی سیاست میں زیادہ مضبوط ہے۔ پہلے پہل رانا تنویر کی کوشش تھی کہ اس الیکشن کو وہ لیڈ کریں۔ حلقے میں کام بھی شروع کر دیا۔ ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ قومی اسمبلی کا حلقہ یہ میاں جاوید لطیف کا ہے اس لیے کہتے ہیں کہ کچھ نرم و گرم گفتگو کے بعد اسے ان کے حوالے ہی کر دیا گیا۔
لوگ کہتے ہیں 2018 کے الیکشن میں بھی اس سیٹ پر وہ درپردہ میاں خالد کی ہی حمایت کر رہے تھے۔ دونوں کا تعلق ارائیں برادری سے ہے جو کہ 1947 سے اس حلقے میں اکثر جیتتی رہی ہے۔ اس کے بر عکس ورک خاندان نے صرف دو مرتبہ الیکشن جیتا ہے۔ وہ بھی صرف قومی اسمبلی کا اور دونوں ہی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے۔ نذیر ورک 1990 میں آئی جے آئی اور سعید ورک 2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ قائد اعظم کی ٹکٹ پر۔ دونوں مرتبہ ان کے ساتھ، ان کے اتحادی ارائیں برادری کے ایم پی اے جیتے۔ 2002 میں تو یہی میاں خالد تھے۔ اسی دور میں پرویز مشرف کے مئی 2007 کے اسلام آباد والے جلسے میں وہ بدنام زمانہ بینر لہرایا گیا تھا جس میں مشرف کو پاکستان سے زیادہ اہمیت دی گئی تھی اور بینر لکھنے والے نے آگے ان کا نام لکھ دیا تھا۔
اس ضلع میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد 85 فیصد ہے۔ ضلع، لاہور کی ہمسائیگی، رچنا دوآب کی سر سبز زمین اور بہت سی فیکٹریوں کی وجہ سے ملک کے امیر ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ انہیں وجوہات کی بنیاد پر اس شہر میں کسی کی بدمعاشی نہیں چلتی۔ یہ شہر بڑے بڑے گرگ بھیڑ بنا دیتا ہے۔ کچھ سالوں کے بعد ایک نئی کروٹ لیتا ہے۔ 1970۔ 77 میں یہ پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا۔ 88 میں قومی اسمبلی کی ساری سیٹیں اسے ملیں۔ اسے پنجاب کا لاڑکانہ کہتے تھے۔ اس کے بعد نواز شریف کی قیادت میں چلنے والی مسلم لیگ کا دور شروع ہوا۔ جو کہ ابھی تک موجود ہے۔
یہ شہر اور ضلع اینٹی اسٹبلشمنٹ ہے۔
پچھلے سال تک یہ نعرہ نون لیگ لگا رہی تھی اور اسے بھر پور سپورٹ مل رہی تھی۔ اب تحریک انصاف نے اس علم کو اٹھا لیا ہے۔ کیا لوگ اتنی جلدی اس یو ٹرن پر ان کے پیچھے چل پڑیں گے؟
ہم نے جو جوش ستر اور اسی کی دہائی میں جیالوں، نوے کی دہائی اور اکیسویں صدی کے پہلے دو عشروں میں متوالوں میں دیکھا وہی اب عمران خان کے کھلاڑیوں میں دیکھ رہے ہیں۔ کیا عوام بھی وہی ریسپانس دیں گے؟ یہ سوال قابل غور ہے۔
نون لیگ کے ٹکٹ ہولڈر کے پاس چار دہائیوں کا تجربہ ہے۔ میاں خالد کو ہم اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ 1985 میں نذیر ورک کو ہرانے والے میاں عبدالرؤف کے پیچھے چلا کرتے تھے۔ خرم ورک کا یہ پہلا الیکشن ہے۔ اس مشکل الیکشن میں کیا ورک برادری نے اس ابھرتے ہوئے سیاست دان کو دریا میں ڈوبنے کے لیے دھکا دیا ہے یا واقعی ہی اپنی قیادت خاندان کے پرانے سیاست دانوں سے لے کر ان کو دینے پر متفق ہو گئے ہیں؟ یہ بھی اہم سوال ہے۔
ورک برادری کے ساتھ ڈوگر، گجر، راجپوت سمیت شہر کی کسی بھی برادری کا اتحاد نہیں ہے۔ پورے ملک میں دو ڈوگر ایم این اے ہیں جن میں سے ایک عرفان ڈوگر پچھلے تین انتخابات میں اس ضلع سے نون لیگ کی ٹکٹ پر جیت رہے ہیں۔ گجر برادری کی پگ چوہدری سجاد حیدر کے سر پر ہے جو 2002 سے الیکشن جیت رہے ہیں۔ راجپوت رانا تنویر ہیں۔ راجپوت خرم منج اپنا دھڑا رکھتے ہیں جو جٹ برادری کی مدد کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ واحد مضبوط دھڑا ہے جو ورک برادری کا ساتھ دے رہا ہے۔ برادری کی سیاست والے اس شہر میں جٹ برادری کے طیب راشد سندھو جنہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر بیس ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے رانا تنویر کے ساتھی ہیں اور کھل کر نون لیگ کی مدد کر رہے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ پی پی پی اور نون لیگ جب اس شہر میں آئے تو ان کے بھی یہی حالات تھے اور انہوں نے تختے الٹ دیے۔ لیکن یاد رہے کہ دونوں نے جنرل الیکشن میں یہ فتوحات حاصل کیں۔ یہ ضمنی الیکشن ہے جس میں نعرے نہیں برادری اور دھڑے کی سیاست زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اس پر حمزہ شہباز کی حکومت اور نون لیگ کی آئندہ سیاست کا دار و مدار ہے۔ اگر وہ یہ الیکشن ہار گئے تو پھر ہوا اکھڑ جائے گی۔ اس بات کا احساس پوری پارٹی کو ہے۔ پارٹی ضمنی الیکشن لڑنے کی ماہر ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں حالات میں انہوں نے اپنی اس صلاحیت کو منوایا ہے۔
آخری چیز جو الیکشن پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوگی وہ ووٹ بھگتانے کا تناسب ہو گا۔ چارجڈ ووٹرز کی وجہ سے تحریک انصاف کے لیے یہ آسان ہو گا۔ کیا نون لیگ پوری حکومتی مدد اور پری پول مینجمنٹ کے ساتھ اس شعبے میں ان کا مقابلہ کر سکے گی؟
یہ سوال سب سے اہم ہے اور اسی نے الیکشن کے نتیجے پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونا ہے۔
سید محمد زاہد