اردو غزلیاتامید فاضلیشعر و شاعری

ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی

امید فاضلی کی ایک اردو غزل

ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے

یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے

نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے

ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر گئے ہوتے

ہمی نے زخمِ دل و جاں چُھپا لیے، ورنہ
نہ جانے کتنوں کے چہرے اُتر گئے ہوتے

سکون ِ دِل کو نہ اِس طرح بھی ترستے ہم
تِرے کَرَم سے سے جو بچ کر، گُزر گئے ہوتے

جو تِیر، اندھی ہَوا نے چلائے تھے کل رات!
نہ ہوتے ہم ، تو نجانے کِدھر گئے ہوتے

ہَمَیں بھی دُکھ تو بہت ہے، مگر یہ جھوٹ نہیں
بُھلا نہ دیتے اُسے ہم، تو مر گئے ہوتے

جو ہم بھی اُس سے زمانے کی طرح ملتےاُمیدؔ
ہمارے شام و سحر بھی سنور گئے ہوتے

 

امید فاضلی

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button