سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں
بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہروالوں میں
پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا
ہم جواب کیا دیتے کھوگئے سوالوں میں
رات تیر یادوں نے دل کو اس طرح چھیڑا
جیسے کوئی چٹکی لے نرم نرم گالوں میں
یوں کسی کی آنکھوں میں صبح تک ابھی تھے ہم
جس طرح رہے شبنم پھول کے پیالوں میں
میری آنکھ کے تارے اب نہ دیکھ پاؤگے
رات کے مسافر تھے کھوگئے اجالوں میں