پچھل پیری
سرکنڈوں کے پیچھے
کالے برگد کا آسیب کھڑا تھا
جس کی شاخیں واپس دھرتی چاٹ رہی تھیں
پچھلے تیرہ سال سے آدھی رات وہاں پر
خالص گھی کی خوشبو والا ڈیوا خود ہی جل جاتا
اور پچھل پیری ہنسنے لگتی ۔۔
بستی کا ہر ایک سجیلا
مونچھوں کو
تاؤ دیتا کھجلانے لگتا ۔۔۔
جس سے بچے ڈر جاتے
اور ہانڈی چولہا کرنے والی آنکھیں لال بھبھوکا ہوتیں۔۔
عامل باوے اور معلم جتنا پڑھتے الٹا ہوتا ۔۔
دیسی گھی جلنے کی خوشبو اور کسیلی ہونے لگتی
پھر کوئی عورت رونے لگتی ۔۔۔
اک دن بستی کی ماؤں نے
ہمت کر کے کالا برگد کاٹ گرایا
سرکنڈوں کو آگ لگا دی۔۔
کچھ دن گزرے تو کھیتوں سے
نوچی ادھڑی ننھی سی اک لاش ملی تھی
اب تو یہ معمول ہوا ہے ۔۔
بستی کے مردوں نے پہلے ہی بولا تھا
یہ مت کرنا ۔۔
پچھل پیری روٹھ گئی ہے ۔
ذوالقرنین حسنی