گُلاب پھر سے مہک اُٹھیں گے
گُلاب پھر سے مہک اُٹھیں گے، یقیں رکھو
یقیں رکھو کے جو ہوا وہ خُدا کی جانب سے امتحاں تھا
اور حشر کی کچھ نشانیوں میں سے اِک نشاں تھا
کچھ اپنی اس میں جفائیں بھی ہیں، خطائیں بھی ہیں ضرور شامل
ہمارے اپنے کہیے کی اس میں سزائیں بھی ہیں ضرور شامل
کہ ہم نے قدرت سے جنگ کرنے کو اپنا حق ہی سمجھ لیا تھا
ہمیں جو کرنا تھا کب کیا وہ،
نہیں جو کرنا تھا وہ کیا تھا
مگر ابھی بھی سنبھل گئے تو، کوئی بھی مشکل نہیں رہے گی
ہمارے رستے میں گُل کھلیں گے
کہیں بھی دلدل نہیں رہے گی
ہمارے جسموں کے گھاؤ ہم نے ہم آپ بھرنے ہیں یاد رکھو
ہمارے روحوں پہ جو خراشیں سی آ گئی ہیں
انہیں مٹانا ہے اب ضروری
ہمیں سنبھلنا ہے اور ہم نے گِرے ہوؤں کو سنبھالنا ہے
غموں سے ان کو نکالنا ہے
یہ زندگی تو ازل سے تجدید مانگتی ہے
یہ دے کے نرگس کا خال کاسہ، عوض میں خورشید مانگتی ہے
ہمیں سجانا ہے اپنے گھر کو نئے سرے سے
ہمیں بنانا ہے اپنے گھر کو نئے سرے سے
ہمیں بچانا ہے اپنے گھر کو نئے سرے سے
یقیں رکھو کہ جو ہوا وہ خُدا کی جانب سے امتحاں تھا
کچھ اس میں اپنی جفائیں بھی ہیں، خطائیں بھی ہیں ضرور شامل
مگر یہ سچ ہے
یقیں خدا اگر ہے باقی
اور اپنا مضبوط ہے ارادہ
نہیں ہے پت جھڑ کے دن زیادہ
گُلاب پھر سے مہک اُٹھیں گے، یقین رکھو
فاخرہ بتول