سماعتوں میں زباں سے نکل کے آتا ہے
وہ لفظ دل میں کہاں سے نکل کے آتا ہے
اک التجا ہے جو چاہو تو۔ مسترد کر دو
نہیں کا لطف بھی ہاں سے نکل کے آتا ہے
وہاں سے ظلمت شب کواجالا ملتا ہے
یہ شمس روز جہاں سے نکل کے آتا ہے
یہ زخم زخم کے اندر ہیں دائروں کی طرح
نشان جیسے نشاں سے نکل کے آتا ہے
جھکی نگاہ اٹھاتا ہے اس طرح سے وہ
کہ تیر جیسے کماں سے نکل کے آتا ہے
وہ روز خواب نگر میں محل بناتا ہے
جو شخص خستہ مکاں سے نکل کے آتا ہے
یہ نحوت غم ہجراں ، وہ کبر یکتائی
کہ کون اپنے گماں سے نکل کے آتا ہے
محبتوں کی جزا ہوکہ نفرتوں کی سزا
عدید سود و زیاں سے نکل کے آتا ہے
سید عدید