- Advertisement -

دیکھتا ہے ہو کے حیراں آدمی

شہناز رضوی کی ایک اردو غزل

دیکھتا ہے ہو کے حیراں آدمی
ہو گیا ہے کتنا ارزاں آدمی

اِک زمانہ تھا ، ہُوا کرتا تھا جب
آدمی کے دُکھ کا درماں آدمی

نفسا نفسی پھیلی ہے بس چار سُو
آج ہے کتنا پریشاں آدمی

قیدِ تنہائی ہے اور ہے دیکھئے
روزنِ دیوارِ زنداں آدمی

اِس پریشاں دَور میں بتلایئے
کیسے ڈھونڈے کوئی خنداں آدمی

توڑ دی مہنگائی نے ایسی کَمَر
ہر طرف ہے پا بجولاں آدمی

سوچ کر “شہناز” یہ بتلایئے
کِس طرح بنتا ہے اِنساں آدمی

 شہناز رضوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شہناز رضوی کی ایک اردو غزل