- Advertisement -

سِوائے دوست کے دُشمن بھی ہیں باراتوں میں

شہناز رضوی کی ایک اردو غزل

سِوائے دوست کے دُشمن بھی ہیں باراتوں میں
پھول کے درمیاں ہیں خار بھی سوغاتوں میں

تُم سمجھتے ہو سمجھتے رہو دُشمن جِس کو
یاد رکھتا ہے وہی تُم کو مُناجاتوں میں

کبھی جو یاد ستائے گی کسی کی تُم کو
تو روؤگے بہت اُٹھ اُٹھ کے تُم بھی راتوں میں

ابھی ہے اُن سے مُحبّت نئی نئی لیکن
وہ کھُل ہی جائیں گے دو چار مُلاقاتوں میں

نہ حد سے زیادہ سمجھدار خود کو سمجھو تُم
کہ لوگ بیٹھے ہُوئے ہیں ہماری گھاتوں میں

کروگے لاکھ جتن پھِر بھی آج یہ سُن لو
نہ آئیں گے کبھی اب ہم تُمہاری باتوں میں

ہماری ہار پہ خوش ہے کوئی تو پھِر “ شہناز “
ہماری جیت لکھی ہے ہماری ماتوں میں

شہناز رضوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شہناز رضوی کی ایک اردو غزل