وہ ستارہ ساز آنکھیں
مجھے دور سے جو دیکھیں
تو مرے بدن میں جاگے
کسی روشنی کی خواہش
کسی آرزو کا جادو
کسی حسن کی تمنا
کسی عشق کا تقاضا
مرے بےقرار دل کو
بڑی خامشی سے چھو لے
کوئی نرم رو اداسی
کوئی موج زندگی کی
کوئی لہر سر خوشی کی
کوئی خوش گوار جھونکا
اسی آسماں کے نیچے
اسی بے کراں خلا میں
کہیں ایک سرزمیں ہے
جو تہی رہی نمی سے
رہی روشنی سے عاری
رہی دور زندگی سے
نہیں کوئی اس کا سورج
نہ کوئی مدار اس کا
اسی گمشدہ خلا سے
کسی منزل خبر کو
کسی نیند کے سفر میں
کسی خواب مختصر میں
کبھی یوں ہی بے ارادہ
کبھی یوں ہی اک نظر میں
جو کیا کوئی اشارہ
وہ ستارہ ساز آنکھیں
مجھے کر گئیں ستارہ
ثمینہ راجہ