کس شہر نہ شہرہ ہوا نادانئ دل کا
کس پر نہ کھلا راز پریشانئ دل کا
آؤ کریں محفل پہ زر زخم نمایاں
چرچا ہے بہت بے سر و سامانی دل کا
دیکھ آئیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ
شاید کوئی محرم ملے ویرانئ دل کا
پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو
سونپا تھا جسے کام نگہبانئ دل کا
دیکھو تو کدھر آج رخ باد صبا ہے
کس رہ سے پیام آیا ہے زندانئ دل کا
اترے تھے کبھی فیضؔ وہ آئینۂ دل میں
عالم ہے وہی آج بھی حیرانئ دل کا
فیض احمد فیض