اردو شاعریاردو نظمشہزاد نیّرؔ

دور تک کوئی نہیں

شہزاد نیّرؔ کی ایک اردو نظم

دور تک کوئی نہیں

آج پھر پیاس کے بادل سے اُمڈ آئے ہیں

آج پھر آنکھ نے ساون کی دُہائی دی ہے

اتنے بے نور زمانوں کی مسافر دھرتی

چشمِ بے نور بھی کیا دیکھے گی

چار سو دشت! بگولوں سے نکلتے چہرے

حجلہء جاں میں نظر دور تلک بھٹکے گی

کس کو معلوم ہے کس نقش پہ پتھر ہوگی!

جسم بادل سے بنے آنکھ تلک آئے تھے

ایسے معدوم ہوا روپ کا سونا‘ جیسے

زاویہ دھیان کا خورشید بدل ڈالے ، تو

آنکھ بادل کو سہولت سے بدل دیتی ہے

چشم ‘پیکر کی تراشِندہ ہے

جسم پانی سے بنے تھے شاید

دل نے آنکھوں سے بہاڈالے ہیں !

جسم خوشبو سے بنے‘ نازک اندام

آنکھ پیکر سے ہٹائے نہ ہٹے

جسم پتھر سے نکل آئے قدامت اوڑھے

چَشم پیکر کی تراشندہ ہے!

جنگلوں جنگلوں تجسیم مجسّم ہو کر

کس کی صورت کی طرف چلتی چلی جاتی ہے

آسمانوں کو دریچوں سے سجاتی آنکھو!

دورتک کوئی نہیں ، کوئی نہیں ، کوئی نہیں

کوئی روزن کوئی جالی نہیں زندانوں میں

دور تک دھند ہیولوں کے جہاں بکھرے ہیں

کوئی پیکر بھی نہیں

صرف گماں بکھرے ہیں !

شہزاد نیّرؔ

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button