تبدیلئ مزاج کو آب و ہوا ملے
ساگر میں جو کشش ہے پہاڑوں پہ کیا ملے
میں سیپیاں ہی چنتی ہوں ساحل کی ریت سے
میں ڈھونڈتی ہی کب ہوں کہ موتی پڑا ملے
آمادہ ہی نہیں ہے پرندہ رہائی پر
زنجیر ٹوٹ جائے یا پنجرہ کھلا ملے
اندر کی توڑ پھوڑ نے تعمیر کر دیا
اب اس سے بڑھ کے اور بھلا کیا سزا ملے
اک میں نہیں اکیلی سرابوں کے شوق میں
اپنے علاوہ اور کئی مبتلا ملے
ہمدرد بن کے سنتے ہیں سب کی کہانیاں
مضمون لکھنے کے لیے کچھ تو نیا ملے
آنکھوں میں ایک اشک ہی رکھا سنبھال کے
دیکھا نہ کوئی خواب تو تعبیر کیا ملے
دیرینہ دوستوں کا کبھی تو خیال کر
یہ کیا کہ جب ملے تو سبھی سے خفا ملے
گویا سکون_قلب عطا کردیا گیا
صد شکر ہے خدا کا، ہمیں مصطفیٰ ملے
صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
شہلا خان