آپ کا سلاماردو شاعریاردو غزلیاتحسیب بشر

آنکھ ہے پر عجب تماشا ہے

حسیب بشر کی ایک غزل

آنکھ ہے پر عجب تماشا ہے
حُسن اور عشق سب تماشا ہے

تُو مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے
یوں سمجھ لو کہ اب تماشا ہے

تیرے جانے سے یہ کھلا مجھ پر
تیرا حسب ونسب تماشا ہے

تجھ سے بہتر تو یہ پرندے ہیں
جو سمجھتے ہیں کب تماشا ہے

تُو تو کہتا تھا آخری ہوں میں
عشق رب ہے تو رب تماشا ہے

تجھ سے مل کر تجھے بتاؤں گا
یہ جو تیرے سبب تماشا ہے

میرے شعروں پہ داد دیتے حسیب
خوش ہوئے یار جب تماشا ہے

حسیب بشر

حسیب بشر

حسیب بشر کا تعلق پنجاب کے شہر وزیرآباد سے ہے۔ آپ لاہور کی مختلف سماجی اور غیر سماجی تنظیموں کے اہم رکن ہیں۔ آپ نے اپنا تخلیقی سفر2011 میں شروع کیا اور 2016 میں منظر عام پر آئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button