- Advertisement -

ہماری آنکھوں کے پار اترو

عاصمہ فراز کی اردو نظم

زمانے بھر کی نظر میں جاناں
ہمارے تم ہی تو چارہ گر ہو
تمہارا بنتا ہے
جان لینا
کہ ان لبوں پہ جو اک ہنسی ہے
وہ عارضی ہے
یہ غم چھپانے کی اک سعی ہے
ہمارے دل میں
دکھوں کا موسم
ہی داٸمی ہے
ہماری آنکھوں کے پار اترو
تو تم یہ جانو
کہ ان میں کتنےسہانے خوابوں کی میتیں ہیں
جو بے کفن ہیں
ہمارے دل میں
دبی دبی سی جو حسرتیں ہیں
وہ بال کھولے انھی کی لاشوں
پہ روز و شب بین کر رہی ہیں
کہ ان کی چیخوں کے شور سے اب
ہمارے کانوں کے بند پردے
بھی پھٹ رہے ہیں
کوٸی نہیں ہے جو آکے ان کے
دکھوں پہ روٸے
کہ ان کو تھامے اور ان کے دکھ میں
کوٸی بھی ان کو تسلی دے دے
ہمارے خوابوں کے سب جنازے
جو ہر جگہ پر پڑے ہوٸے ہیں
وہ منتظر ہیں کہ کوٸی آٸے
بھلے نا ان کو وہ زندگی دے
مگر وہ اتنا تو کرتا جاٸے
تڑپتی لاشوں پہ رحم کھاٸے
اٹھا کے ہاتھوں میں خاک اپنے
وہ میتوں پر ہی ڈال جاٸے
تمہیں تو یہ بھی پتہ نہیں ہے
کہ دل کے ارمان مر چکے ہیں
کہ اب تو کچھ بھی بچا نہیں ہے
کبھی جو فرصت ملے تو آٶ
ہماری آنکھوں کے پار اترو
یہاں پہ جتنی بھی میتیں ہیں
انھیں گھڑی بھر کو
تم بھی رو لو
نا رو سکو تو
چلے ہی آٶ
تمہاری آہٹ کی چاپ سن کر
یہ جی اٹھیں گی
وگرنہ یونہی ہمارے دل کے
یہ سرد خانے پڑی رہیں گی

عاصمہ فراز

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عاصمہ فراز کی اردو نظم