آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریعمر اشتر

ہاتھوں میں کشکول اُٹھا کر رقص کیا

ایک اردو غزل از عمر اشتر

ہاتھوں میں کشکول اُٹھا کر رقص کیا
تنہائی کو یار بنا کر رقص کیا

صدیق و فاروق و غنی کا بتلایا
ہم نے شانِ علی سُنا کر رقص کیا

مجنوں نے تاریخ رقم کی اور ہم نے
اُس کی صورت دشت میں جا کر رقص کیا

گھیرا مجھ کو آ کے رات اندھیری نے
ایک مکمل دیپ جلا کر رقص کیا

چارہ گر جو آیا بانٹنے رنج و غم
اُس کو اپنا درد سُنا کر رقص کیا

یار نہ مانا جب سب دِل کی باتوں سے
ہم نے تو پھر اشک بہا کر رقص کیا

چارہ گر بھی دیکھ نہ پایا غم میرے
چارہ گر کو ساتھ نچا کر رقص کیا

ٹوٹ رہا تھا بزمِ رقص کا ویرانہ
ہم نے مَن کا درد بڑھا کر رقص کیا

واعظ نے اشعار لکھے جس کی خاطر
اِک دن اُس کو ساتھ رُلا کر رقص کیا

عمر اشتر

عمر اشتر

نام: عمر اشتر تاریخِ پیدائش: 02 ستمبر 2002ء والد کا نام: زوالفقار احمد دادا کا نام: نذیر حسین مذہب: اِسلام تحصیل و ضلع: سیالکوٹ ملک: پاکستان "تعارفی شعر" شدّتِ غم کو زرا کم تو وہ ہونے دیتی میں اگر رونے لگا تھا مجھے رونے دیتی زیرِ نگرانی مجھے رکھا ہوا ہے اُس نے وہ مجھے اور کسی کا نہیں ہونے دیتی ہجر میں ہوتے ہوئے وصلِ جنوں ڈھونڈتا ہوں کتنا پاگل ہوں اداسی میں سکوں ڈھونڈتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button