- Advertisement -

ہاتھوں میں کشکول اُٹھا کر رقص کیا

ایک اردو غزل از عمر اشتر

ہاتھوں میں کشکول اُٹھا کر رقص کیا
تنہائی کو یار بنا کر رقص کیا

صدیق و فاروق و غنی کا بتلایا
ہم نے شانِ علی سُنا کر رقص کیا

مجنوں نے تاریخ رقم کی اور ہم نے
اُس کی صورت دشت میں جا کر رقص کیا

گھیرا مجھ کو آ کے رات اندھیری نے
ایک مکمل دیپ جلا کر رقص کیا

چارہ گر جو آیا بانٹنے رنج و غم
اُس کو اپنا درد سُنا کر رقص کیا

یار نہ مانا جب سب دِل کی باتوں سے
ہم نے تو پھر اشک بہا کر رقص کیا

چارہ گر بھی دیکھ نہ پایا غم میرے
چارہ گر کو ساتھ نچا کر رقص کیا

ٹوٹ رہا تھا بزمِ رقص کا ویرانہ
ہم نے مَن کا درد بڑھا کر رقص کیا

واعظ نے اشعار لکھے جس کی خاطر
اِک دن اُس کو ساتھ رُلا کر رقص کیا

عمر اشتر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از عمر اشتر