- Advertisement -

پھر بہانے پرانے بناتے ہوئے

ناہید ورک کی اردو غزل

پھر بہانے پرانے بناتے ہوئے
وہ جُدا ہو گیا مسکراتے ہوئے
کب تلک میں سہوں بے وفائی تری
کیوں جیوں خود کو ایسے مٹاتے ہوئے؟
خواب میں بھی مرے خواب کل رات کو
ڈر رہے تھے تری سمت جاتے ہوئے
تیری یادوں کا ریلا گزرتا رہا
سب خد و خال میرے مٹاتے ہوئے
کل کھڑی تھی جہاں آج بھی ہوں وہیں
تیری یادوں کی شمّعیں جلاتے ہوئے
تُو کہاں رہ گئی اے مری زندگی؟
تھک گئی پاس تجھ کو بلاتے ہوئے
ہجر کی دھوپ سے میں جھلستی رہی
وصل کی آس میں جاں گنواتے ہوئے

ناہید ورک

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
حسیب بشر کی ایک غزل