حسیب بشر
معروف شاعر حسیب بشر کا تعلق پنجاب کے شہر وزیرآباد سے ہے۔ آپ لاہور کی مختلف سماجی اور غیر سماجی تنظیموں کے اہم رکن ہیں۔ آپ نے اپنا تخلیقی سفر2011 میں شروع کیا اور 2016 میں منظر عام پر آئے۔حسیب کے ہاں ہماری سماجی شکست و ریخت کے استعارے جا بجا ملتے ہیں رشتوں کی بدلتی صورتحال اور معاشی ناہمواری کا دکھ حسیب کی شاعری میں نظر آتا ہے۔حسیب کی شاعری کے اندر تصوف کے رجحانات سفر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔حسیب ایک حساس دل رکھنے والے شاعر کی طرح جذبات کی عکاسی کرتا ہے ۔حسیب جذبات سے بھرا پڑا ہے۔حسیب ایک درویش صفت شاعر ہے ۔حسیب کی شاعری میں جدت پسندی اور تروتازگی دکھائی دیتی ہے ۔یہ بات حسیب کو دوسروں سے معروف و ممتاز کرتی ہے
-
یہ کس کہانی کا کردار ہو گیا ہوں میں
حسیب بشر کی ایک غزل
-
نہیں, آوارگی قبول نہیں
حسیب بشر کی ایک غزل
-
میرے دامن پہ عجب داغ لگا کر سائیاں
حسیب بشر کی ایک غزل
-
جا تجھے دل ربا معاف کیا
حسیب بشر کی ایک غزل
-
کھا گئی ہے تری کمی مجھ کو
حسیب بشر کی ایک غزل
-
بے وفا روبرو تجھے دیکھوں
حسیب بشر کی ایک غزل
-
آنکھ ہے پر عجب تماشا ہے
حسیب بشر کی ایک غزل
-
اس سے پہلے ترے کوچے میں تماشا ہوتا
حسیب بشر کی ایک غزل
-
سیاہ افق سے پرے شام دوں محبت میں
حسیب بشر کی ایک غزل
-
پس موت کا امکاں ہے کرونا کے سبب سے
حسیب بشر کی ایک غزل
-
گھر کہاں ہے مجھے سمجھنے کو
حسیب بشر کی ایک غزل
-
حُسن کا یہ کمال ہے سائیں
حسیب بشر کی ایک غزل