سیاہ افق سے پرے شام دوں محبت میں
چراغ سا تجھے اک نام دوں محبت میں
عجب نہیں کہ مجھے ہو نشہ مسافت کا
میں ہر کسی کو یہی جام دوں محبت میں
مری گرفت میں آیا نہیں بدن کا لمس
اسے چراغ کی لَو نام دوں محبت میں
خدا کرے کہ تُو دل خود ہی پھیر لے مجھ سے
میں خود کو کیوں کوئی الزام دوں محبت میں
کوئی امید نہیں واپسی کی پھر بھی حسیب
اس انتظار کو کیا نام دوں محبت میں
حسیب بشر