کبابِ سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
سیہ پوشاک بن کر خانۂ کعبہ میں جا پہنچے
بلا کا بھیس او کافر ترے گیسو بدلتے ہیں
بہار آئی ہے صبحِ عید کا عالم ہے گلشن میں
نئی پوشاک شمشادِ کنارِ جُو بدلتے ہیں
نزاعِ کفر و دیں ہے دُور دَورِ زلف و عارض میں
مسلمانوں سے ٹوپی آج کل ہندو بدلتے ہیں
تری نیچی نگاہیں سایۂ مژگاں میں پھرتی ہیں
پرے میں جیسے بانکے پینترے ہر سو بدلتے ہیں
بہا میں کچھ تو پایا ہے انہیں اے چشمِ تر بہتر
جو اپنے موتیوں سے جوہری آنسو بدلتے ہیں
مئے کہنہ ہے یہ آبِ وضو تیرا نہیں زاہد
جو چشمے نُور کے ہیں کب وہ رنگ و بُو بدلتے ہیں
تری محفل میں یہ دیوار کی کہتی ہیں تصویریں
ادب سے بیٹھنے والے کہیں زانو بدلتے ہیں
امیرؔ اس باغ میں رہ کر کریں کیا دم الجھتا ہے
نہ نخوت چھوڑتے ہیں گُل نہ کانٹے خُو بدلتے ہیں
امیر مینائی