راز سر بستہ محبت کے زباں تک پہنچے
بات بڑھ کر یہ خدا جانے کہاں تک پہنچے
کیا تصرف ہے ترے حسن کا اللہ اللہ
جلوے آنکھوں سے اتر کر دل و جاں تک پہنچے
تری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحد عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے
حیرت عشق مری حسن کا آئینہ ہے
دیکھنے والے کہاں سے ہیں کہاں تک پہنچے
کھل گیا آج نگاہیں ہیں نگاہیں اپنی
جلوے ہی جلوے نظر آئے جہاں تک پہنچے
وہی اس گوشۂ داماں کی حقیقت جانے
جو مرے دیدۂ خوں نابہ فشاں تک پہنچے
حفیظ ہوشیارپوری