اردو شاعریاردو نظمستیا پال آنند

میرے ہاتھوں میں مقید ایک سُورج

ستیا پال آنند کی ایک اردو نظم

میرے ہاتھوں میں مقید ایک سُورج

رات کے پچھلے پہر یہ معجزہ کیسے ہوا تھا؟
آفتاب آکاش کے پچھلے کنارے سے کھسک کر
رات کی تاریکیوں سے ڈرتا ڈرتاآآآ اپنی آب و تاب، اپنی روشنی، اپنی تمازت
پوٹلی میں باندھ کر لایا
مری سوکھی ہوئی مریل ہتھیلی پر اسے رکھا
مری مُٹھّی کو جبراً بند کر کے چل دیا، تو مجھ کو جیسے ہوش آیا

لاکھ کوشش کر چکا ہوں،بند مُٹھّی بند ہے، کھُلتی نہیں ہے
جگمگاتی روشنی مُٹھّی سے کوندوں کی طرح باہر لپک کر

اپنی آب و تاب سے آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے
تابکاری کے شرارے اُنگلیوں سے پھوٹتے ہیں
شہر کے سب لوگ بھی اس معجزے کو دیکھتے ہیں
اپنی ساری عمر تو یہ شخص تاریکی کی چادر کو لپیٹے جی چکا ہے
عین پیری میں بھلا یہ معجزہ کیسے ہوا ، وہ پوچھتے ہیں
ایسی شہرت، یہ جلال و شان و شوکت
اس زوالِ عمر کے مارے ہوئے بوڑھے کو مل سکتی ہے
یہ کس کو پتہ تھا!

میرے ہاتھوں میں مقید میرا سورج
خاک آسودہ مرے ہی ساتھ ہو گا
قبر سے بھی روشنی پھوٹے گی، اتنا جانتا ہوں

ستیا پال آنند

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button