بےسبب ہی بڑھائی بات اس نے
پل میں چھوڑا یوں میرا ساتھ اس نے
میرے دامن میں کچھ بچا ہی نہیں
ھائے پلٹی ہے یوں بساط اس نے
مجھ کو پرنم لگی شبِ ہجراں
جب بھی رو کے گزاری رات اس نے
آ رہا ہے جو راستہ مجھ تک
اس کو سمجھا ہے پل صراط اس نے
مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑ دیا
مجھ سے چھینی یوں کائنات اس نے
عادتاً ہے بڑا وہ ہرجائ
مجھ سے خود ہی کہی یہ بات اس نے
اس کو غیروں نے جیت رکھا ہے
مجھ کو بخشی ہے شاہ مات اس نے
میں ہوں عورت اسی لئے شاید
مجھ کو سمجھا حقیر ذات اس نے
منزہ سید