ایک آواز نے کہا مرے دوست
میں اٹھا اور چل دیا مرے دوست
میں اکیلا لڑوں گا دنیا سے
تیرے ذمے فقط دعا مرے دوست
بولنا ہجر نے سکھایا ہے
دیکھنا تو مجھے سکھا مرے دوست
عشق تنہائی سے نہ ہو جائے
ہو بھی سکتا ہے لوٹ آ مرے دوست
میں بہت یاد آنے والا نہیں
مجھ سے اتنا نہ خوف کھا مرے دوست
جس جگہ پھول اور کبوتر ہوں
اس جگہ پر مجھے بنا مرے دوست
تجھ سے ملتا تھا خواب میں اکثر
تو مرا خواب ہی تو تھا مرے دوست
خوف میں چیخنے لگے تھے لوگ
میں پکارا مرا خدا مرے دوست
ندیم بھابھہ