اہل منصب ، دکھاوا اور انجام
یوسف برکاتی کی ایک اردو تحریر
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ
” جس نے علم اس لئے حاصل کیا تاکہ اس کے ذریعے علماء پر فخر جتائے یا جاہلوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ”
( مستہ رک حاکم کتاب العلم باب الاتعلمو العلمہ لتبا ھو بہ العلماء 273/1 حدیث 300 )
حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے اس فرمان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک علم میں سے کوئی انسان اگر اپنے منصب میں دکھاوے کی آمیزش رکھتا ہے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! دنیا کی اس عارضی زندگی میں ہمیں قدم قدم پر قرآن اور حدیث کی رہنمائی کی شدید ضرورت پڑتی ہے اس پرفتن دور میں جہاں سب سے مشکل کام اپنے ایمان کی حفاظت ہے وہاں شیطان اپنے مختلف روپ میں ہم پر وار کرنے اور ہمارا ایمان ہم سے چھیننے کی ہما وقت کوشش میں مصروف عمل ہے قرآن پڑھئے اس کے ترجمعہ ہر غور کریں اور مستند عالم دین کی تفسیر قرآن سن کر یا پڑھ کر اپنے آپ کو شیطان کے واروں سے بچائیں اور احادیث کا مطالعہ کرکے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرکے شیطان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اسی میں ہماری اس عارضی زندگی اور ہمیشہ قائم رہنے والی قیامت کی زندگی کی بقا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! ایک بہت ہی پیاری حدیث پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اس سے ملنے والے سبق پر عمل کرکے اپنی زندگی کو اللہ کے احکامات پر گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جناب مسلم امام احمد کی ایک روایت کے مطابق حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد ملک شام چلے گئے جب وہ ملک شام پہنچے تو ان کو صحابہ اکرام علیہم الرضوان کے نوجوان بچوں نے پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ راز کی باتیں بتائی ہیں ہمیں بھی وہ راز کی بات بتائیں جو رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بتائی تھی جو حضورﷺ نے آپ کو بتائی تھی وہ راز کی بات آپ ہمیں بتائیں انہوں نے کہا نہیں میری جان چھوڑو کہنے لگے نہیں آپ کو بتانا پڑے گا اور یہ وہ روایت ہے میرے بزرگوں میرے بھائیوں بہنوں اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین دفعہ بے ہوش ہوئے ہیں یہ بات اتنی سیریس اور بھیانک ہے کہ جس کو بیان کرتے وہ تین دفعہ بے ہوش ہوئے ہیں اور بے ہوش بندہ کب ہوتا ہے جب بالکل ڈر جائے نروس ہو جائے اور گر جائے اور وہ بات کیا تھی جب صحابہ کی اولاد اور نوجوانوں نے ان کو پکڑا میرے دوستوں بزرگوں عمل کی نیت سے میں لکھ رہا ہوں اور آپ بھی عمل کی نیت سے سوچیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ان بچوں نے کہا کہ آپ وہ روایت بتائیئے جس میں میں نے عرض کیا کہ تین دفعہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے ہوش ہوئے اب دیکھیں اگر ہم اپنے اردگرد میں اپنے ماحول میں دیکھتے ہیں تو کچھ لوگ ایسے نظر آتے ہیں جن کا دنیا کی اس عارضی زندگی میں ایک بڑا مقام ہوتا ہے لوگ ان کی بہت عزت کرتے ہیں ان میں سب سے پہلا نام ایک حافظ قران اور عالم دین کا ہے جنہیں لوگ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں دوسرے مالدار اور پیسے والے لوگ جنہیں لوگ ان کی دولت اور مال ہونے کے سبب بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ تیسرے وہ شہید جو ملک کی خاطر اپنی جان نچھاور کرکے شہادت کا رتبہ حاصل کرتے ہیں ان تینوں کے بارے میں رسول اللہﷺ نے کیا کہا سنئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے میدان محشر میں ایک قرآن پڑھنے والے قاری اور عالم کو بلایاجائے گا جبکہ ان کی شان عظمت یہ ہے کہ ان کے صدقے لاکھوں لوگ بخشے جائیں گے لیکن ان میں سے ایک بندہ ایسا ہے کہ جس نے اپنی زندگی میں پڑھا قرآن لیکن یہاں حشر کے میدان میں حصہ کچھ نہیں مل رہا وہ عالم دین ہونے کے ناطے زندگی میں تقریریں کرتا رہا ہے جلسے کرتا رہا لیکن یہاں حصہ کچھ نہیں مل رہا کتابیں لکھ رہا ہے لیکن اجر کوئی نہیں مل رہا نصیحت کر رہا ہے لیکن اجر کوئی نہیں مل رہا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں واقعی یہ صحیح ہے کہ اتنی خوفناک بات بتاتے ہوئے ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بے ہوش ہوئے اب دیکھیں حدیث میں آیا کہ قرآن قاری جب پڑھتا ہے تو ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ہیں جو بچہ حافظ قرآن ہوا اپنے ماں باپ کو جنت میں لے جائے گا جس عالم دین اور قاری کے ہاتھ میں کسی نے ہاتھ دیا خدا اس کو بخش دے گا لیکن یہ کیسا قاری اور عالم دین ہے جس کو آج محشر میں اس میں سے کچھ بھی نہیں ملا اب جب میدانِ محشر میں وہ پہنچا اب آ کر کھڑا کیا گیا رب نے اسے دیکھا بھی نہیں فرمایا اُٹھا کے جہنم میں پھینکو اس کو اس نے کہا یا اللہ میں تو پوری زندگی تبلیغ میں رہا دین کی نصیحت کرتا رہا اور مجھے آج یہ حصہ مل رہا ہے کہ مجھے اُٹھا کے جہنم میں پھینکا جائے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ نے اس سے کہا کہ تجھے تیرا اجر تو مل گیا کس نے تجھے کہا کہ تجھے اجر نہیں ملا اجر مل گیا کیونکہ تُو نے نیکی جن لوگوں کے لئے کی چاہا کہ لوگ تجھے بہت اچھی آواز والا کہیں بہت علم والا کہیں بہت واہ واہ کرنے والا کہیں تو وہ تُو لوگوں نے دنیا میں تجھے کہہ دیا تُو نے کبھی میرے لئے پڑھاہی نہیں تھا کبھی کہ یہ کام میرے رب کو پسند ہے اس نیت سے کبھی کیا ہی نہیں تھا یہ باتیں میرے رب کو پسند ہیں کیا ہی نہیں تھا تو جن کے لئے کیا تھا وہ تجھ پر نثار بھی ہوئے اور تجھے بدلہ بھی دیا تو تجھے کس نے کہا کہ تجھے اس کام کا اجر نہیں ملا اجر تُو نے دنیا کے لئے رکھا تھا مل گیا آخرت کے لئے تُو میرے لئے کچھ نہیں لایا گویا اسے اٹھا کے جہنم میں پھینک دیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہا تو دڑام سے زمین پڑگرے ان لوگوں نے آپ کے چہرے کے اوپر پانی کے چھینٹیں ماریں آپ بیدار ہوئے کچھ توقف کے بعد فرمایا کہ پھر بلایا جائے گا ایک مالدار کو واللہ سحری کھلانے والا جنتی ہے واللہ افطاری کھلانے والا جنتی ہے واللہ زکاة دینے والا جنتی ہے واللہ غریبوں کو صدقہ کرنے والا جنتی ہے واللہ رات کے اندھیرے میں صدقہ کرنے والا جنتی ہے واللہ لیکن یہ کیسا امیر آدمی ہے جس کو کچھ بھی نہیں ملا کام سارے کئے اس نے جیسا پہلے والے نے کیے تھے جب اس کو لا کر کھڑا کیا گیا رب کی رحمت نے دیکھا بھی نہیں حکم ہوا اس کو اٹھا کے جہنم میں پھینکو یہ دوسرا طبقہ یہ ہمارے معاشرے میں یہ تین اہم رول ہیں ان کے بغیر معاشرہ ہوتا ہی نہیں ہے ایک علم والا اور ایک مالدار اس نے کہا یا اللہ یہ کیا مجھے کوئی اجر نہیں میں نے تو اپنی تجوری کا منہ کھلا رکھا صبح شام غریبوں میں لنگر تھا راشن تھا سحریاں تھی افطاریاں تھی غریبوں کی بیٹیوں کی شادیاں کرانی تھی بیواؤں کی سرپرستی تھی مولا کچھ بھی نہیں ملا مجھے آج کے دن ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! فرمایا کس نے نہیں دیا تجھے تو ملا کیونکہ جس نیت سے تو کر رہا تھا کہ لوگ تجھے سخی بادشاہ اور مہان کہیں اور ترے دروازے کے آگے کھڑے رہیں تاکہ پورے محلے میں تری واہ واہ ہو کہ سید صاحب نے جمعہ تو نو بجے کیا ہے راشن ایک بجے بانٹیں گے تاکہ کچھ ہلا گلا تو محلے کے اندر ہو تو وہ تو تو نے کر لیا اور لوگوں نے واواہ بھی کی لوگ کہنے لگے کہ حضرت آپ نے بڑا کام کیا حضرت آپ نے بڑا کام کیا تو آگے سے تو نے کہا بس بس ٹھیک ہے تو نے ہمارے لئے کبھی یہ نہیں کہا یہ سب میرے رب کا فضل تھا میں تو قدرت کے آگے ایک بیبس انسان ہوں یہ تو سب میرے رب کا تھا تو نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ غریب کو دینے سے میرا اللہ خوش ہوتا ہے تو نے کہا میں میری واہ واہ ہوگی میرا نام ہوگا تو فرمایا وہ تجھے کس نے کہا اجر نہیں ملا اجر تو مل گیا نا تو نے وہاں جو کیا تو وہاں کا اجر تو مل گیا یہاں کے لئے تو نے کچھ کیا ہی نہیں گویا اسے بھی سیدھا جہنم میں پھینک دیا گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر جیسے گھٹنے کھل جاتے ہیں اس طرح گھٹنے جیسے کھل گئے زمین پر گرگئے کہتے ہیں کہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر جب پانی کے چھٹے لگائے گئے پھر آپ بیدار ہوئے پھر آپ نے آخری بات بتائی فرمایا کہ سب سے آخر میں میدان محشر میں لائے جائے گا ایک مجاہد کو جس نے جان دے دی یہ میدان میں لیکن یہ کیسا مجاہد ہے جس کو اتنے عظیم اور بابرکت اعلیٰ کلمت الحق والے کام کے باوجود اس میں سے حصہ نہیں ملا وہ کہے گا یا اللہ میں تو جان سے گیا میری بیوی بیوہ ہو گئی میرے بچے یتیم ہو گئے میرے لئے کچھ نہیں رہا فرمایا کہ کس نے تجھے کہا نہیں ملا تو تو میدان میں نکلا اس لیے تھا کہ تیرے بازوں میں بڑی طاقت ہے لوگ تیری شجاعت کی واہ واہ کریں جیسے اس نے اپنے علم کے بارے میں سوچا تھا اس نے اپنے مال کے بارے میں سوچا تھا کہ لوگ تیرے علم تیرے طاقت کی واہ واہ کریں تو وہاں تو واقعی میں کہا گیا اگر کوئی پہلوان ہے تو پھر یہی ہے یہ بڑا طاقتور ہے تو نے تو تلوار اس لیے نہیں اٹھایا تھا کہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے میں نکل پڑا ہوں اللہ کے دشمنوں کے مقابلے میں کہ میری جان تو جائے جائے لیکن میری اللہ کی رضا قیمتی ہے یہ میرے رب کا فضل ہے کہ اس نے مجھ جیسے بیکار کو اپنی دین کی خدمت کے لیے لے لیا چن لیا جو میری بخشش کا باعث ہے کہ جس مقصد کے لئے تو نے کیا تھا وہ تو اجر تجھے مل گیا پھر فرمایا کہ اسے بھی اٹھا کے جہنم میں پھینکو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! زرا سوچئیے آج ہمارا اور آپ کا رویہ کیا ہے ؟ اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت ہمیں عطا کردی تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس قابل تھے کہ ہمیں یہ نعمت عطا ہو اور ہم اپنے اردگرد لوگوں کو سامنے اس نعمت کا دکھلاوا کرتے پھرتے ہیں جبکہ بحکم تعالی ہمیں اس رب کا شکر ادا کرنا چاہئے اگر ہم میں سے کوئی اہل علم والا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی آمد پر لوگ تعظیم کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اس کا استقبال کریں اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ ناراض ہوجاتا ہے یہ دکھلاوا نہیں تو کیا ہے ؟ یہ ریاکاری نہیں تو کیا ہے ؟ اس عارضی دنیا کی عارضی زندگی میں اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی منصب و مقام عطا کرہی دیا ہے تو اس میں دکھاوے کا عنصر ریاکاری کی جھلک اور دنیاوی واہ واہ سے بچنے کی کوشش کریں کہ ہمارا انجام بھی ایسا نہ ہو جیسا مطلوبہ حدیث کے مطابق لوگوں کا ہوا اس بات کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ سارے عالم دین حافظ قرآن اور مجاہد فوج کا انجام ایسا ہو بلکہ یہ صرف ان کے بارے میں ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ملنے والی اس نعمت کو اس منصب کو دنیاوی دکھاوے کے لئے استعمال کیا اوراپنی زندگی اسی ریاکاری کی نظر کردی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو! زندگی بہت تھوڑی ہے اور جتنی سانسیں رہ گئی انہیں اس رب تعالی کے احکامات پر کرنے میں گزاریں موت تو ایک اٹل حقیقت ہے اس میں عمر کا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ بڑا ہی جائے گا اس میں جوان بھی جاتے ہیں اللہ محفوظ فرمائے تو جب موت سامنے موجود ہے اور آخرت سامنے ہے تو کس غفلت میں ہم رہ رہے ہیں ہمیں زندگی نے یہ موقع فراہم کیا ہوا ہے کہ ہم موت کی تیاری میں لگ جائیں اگر ہماری تیاری مکمل ہوگی تو آگے امتحانی پرچہ حل کرنے میں بھی دشواری نہیں ہوگی ان شاءاللہ ۔
یوسف برکاتی