اپنی صدا سے اپنی شناسائی کھو گئی
تنہائیوں کے شور میں تنہائی کھو گئی
سینے میں گھٹ رہی ہے محبت کی سانس سانس
چلتی تھی میرے گھر میں جو پروائی کھو گئی
بارات دیکھ کر کسی گھبرو کی رات کو
سسکاریوں کے شور میں شہنائی کھو گئی
دریافت آسمان کی بھائی نہیں ہمیں
سیارے دیکھتے ہوئے بینائی کھو گئی
افسانہ بن گئے مری تاریخ کے ورق
اسلاف کے ہنر کی پذیرائی کھو گئی
چھائی ہوئی ہے دھند نگاہوں کے سامنے
نیناں ان آئینوں کی بھی زیبائی کھو گئی
فرزانہ نیناں